The news is by your side.

مہمند ایجنسی دھماکہ۔۔۔”کیاسب اچھا ہے‘‘؟

“سب اچھا ہے” کاجملہ  ہرادارے کے سربراہ کو پسند آتا ہے۔افغان سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں نماز جمعہ کے بعد ہونے والے دھماکے میں مارے جانے والوں کی تعداد ۲۹ ہوچکی ہے اور زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ چند سالوں میں پاک فوج ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشن کرچکی ہے خصوصا خیبر ون ،خیبر ٹو اور ضرب عضب۔اس کے بعد سرکاری اداروں نے اس علاقے میں “سب اچھا ہے”کا اعلان کیا۔

“سب اچھا ہے” کا نعرہ لگانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت افغانستان اور ہندوستان ملکر پاکستان کے خلاف تمام محازوں پر سرگرمِ عمل ہیں،افغان صدر اشرف غنی نے اپنے حالیہ  دورہ بھارت کے دوران نئی دلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سے چاہ بہار معاہدہ خطے میں پاکستان کی اجارہ داری ختم کردے گا۔اس کے علاوہ اس دورے میں سیکورٹی کے حوالے سے بھی اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ   اس سال اگست میں یومِ آزادی کے موقعے پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنی تقریر میں صوبہ بلوچستان کے بلوچوں کو بغاوت پر ابھارا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ پہلا  ہے کہ کسی بھارتی وزیراعظم نے اپنی تقریر میں صوبہ بلوچستان کے مسائل کو چھیڑ کر بلوچوں کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان کی سلامتی کے ضامن ادارے پہلے ہی یہ شور مچائے ہوئے ہیں کہ بھارت اس خطےمیں دہشت گردوں کی سرپرستی کررہاہے، اس سال مارچ میں پاکستانی حکام کی جانب سے ایک مبینہ انڈین جاسوس کا ویڈیو بیان میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس میں کلبھوشن یادو نامی شخص نے اعتراف کیا ہے کہ وہ انڈین بحریہ کے حاضر سروس افسرہےاور وہ انڈیا کی ایجنسی را کے لیے پاکستان میں جاسوسی کر رہے تھے۔

ابھی آل انڈیا ریڈیو کی بلوچی سروس کے لیے ایک نئی ویب سائٹ اور موبائل ایپ متعارف کروائی جا رہی ہیں۔یہ سب کچھ پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کررہاہے۔ایسے میں ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ  پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سازشیں ہورہی ہیں ایسے میں فقط چند دہشت گردوں کو ہلاک کردینے سے دہشت گردی  کا سلسلہ رکنے والانہیں۔

دہشت گردی کو روکنے کے لئے ایسے میڈیا کو بھی روکنا ہوگا جو پاکستان دشمن نظریات کی تبلیغ کرتا ہے ،جو پاکستانیوں کے درمیان علاقائی اور دینی تعصبات کو فروغ دیتاہے اور ایسے دینی مدارس پر بھی پابندی لگانی پڑے گی جو آئینِ پاکستان کو غیر اسلامی کہتے ہیں اور ان تنظیموں پر بھی ہاتھ ڈالنا پڑے گا جو پاکستان کو کافرستان اور اہلیانِ پاکستان کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔

اسی طرح دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والوں اور بابائے طالبان کہلانے والوں کے خلاف بھی قانونی کاروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں  یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دہشت گردوں کے مخصوص مدارس اور تنطیمیں ہیں اور ان کے ٹھکانوں کو سب لوگ پہچانتے ہیں۔لہذا تمام دینی مدارس کوبرا بھلا کہنے  کے بجائے پاکستان دشمن دینی مدارس  کے خلاف آپریشن کی فوری ضروروت ہےخصوصا بلوچستان اور خیبر پختونخوا ہ میں داعشی اور طالبانی نظریات کے خاتمے کے لئے عوام کو فوج کے ساتھ ملکر ملی وحدت اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ہندوستان،عربستان اور افغانستان کی ایماپر پاکستان میں فرقہ واریت اور علاقائی و لسانی تعصبات کو فروغ دینے والی تمام سائٹس ،چینلز،مجلات ، اخبارات  اور شخصیات کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جانی چاہیے۔

ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اس ملک میں جو شیعہ کا دشمن ہے وہی سنی کا بھی دشمن ہے اور جو بلوچوں  اور پختونوں کو بغاوت پر اکساتاہے وہ دیگر قبائل کا بھی خیر خواہ نہیں ہے۔اس لئے کہ خون شیعہ یا سنی  اور بلوچ یا پٹھان نہیں ہوتا،خون فقط خون ہوتا ہے اور بے گناہوں کا خون بہانے والا پوری ملت اور پورے ملک کا غدار ہے وہ خواہ کسی بھی فرقے یا قبیلے سے تعلق رکھتاہو۔

“سب اچھا ہے “کا نعرہ لگانے والو!اچھا وہی ہے جو واقعی اچھا ہے ،جو بابائے قوم کو محسن ملت کہتا ہے ،جو ملک میں بسنے والے تمام فرقوں کا احترام کرتا ہے ،جو دیگر مسالک کی عبادت گاہوں کو مقدس سمجھتا ہے جو رواداری اور اخوت پر ایمان رکھتا ہے  لیکن جو ملک کے ساتھ غداری کرتا ہے،ہم وطنوں کو خاک و خوں میں غلطاں کرتا ہے،اور نفرتوں اور تعصبات کو ہوا دیتا ہے وہ کسی طور بھی اچھا نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email