The news is by your side.

تکفیریت: مسلمانوں کی قوت توڑنے کا خطرناک ہتھیار

عصر حاضر فتن، دجل، غفلت، ذہنی ارتداد اور ذہنی تخریب کاری کا دور ہے، ان فتنوں میں ایک بہت بڑا فتنہ، فتنہ تکفیر ہے، دشمنان اسلام مسلمانوں کے درمیان پھوٹنے والے تمام فروعی اور اصولی اختلافات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت کو باہم ٹکراؤ کے ذریعے ختم کرنے کا طریقہ ان کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھا کر تکفیری سوچ اور فکر کو ہوا دینا ہے کیونکہ کسی مسلمان کی تکفیر کے بعد اسے مرتد قرار دے کر واجب القتل قرار دے دینا ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے مسلمان انتہائی اخلاص اور مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کو انفرادی ،قومی اور بین الاقوامی سطح پر ختم کرنے پرآمادہ ہو جائیں گے۔

 جہاں امت مسلمہ کو مختلف مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے مہلک اور خطرناک دو غیر متعدل رویے ہیں :

1-مسلمانوں کی تکفیر کرنا

2-۔کافروں کو مسلمان کہتے ہوئے کفر و اسلام کے فرق کو مٹا دینا

اول الذکر گروہ کی جڑ خوارج سے ملتی ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں سب سے پہلے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب رسول ﷺ کی تکفیر کی اور ان کے قتل کو جائز سمجھا ،ان کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج قرار پا تا ہے۔

مرتد قرار دینے کے ساتھ قتل کرنے کا جواز اس قدر سنگین عمل ہے کہ اس کے ساتھ ’’شرعی اجازت اور مذہبی ذمہ داری“ کا عنصر جب شامل ہوجائے تو مذاکرات کے تمام دروازے بندہو جاتے ہیں جبکہ دوسرا جدت پسند گروہ کفر و اسلام کے فرق کو مٹاتے ہوئے یہودو نصاریٰ کو بھی باوجود رسالت مآب ﷺ کی نبوت کے انکار کے جنت میں داخل کرنے پر مصر ہے۔

یہ دونوں غیر معتدل رویے مسلمانوں کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں،عمومی طور پر خوارج کی فکر کو مذہبی حلقوں میں عام کیا جاتا ہے تا کہ ان کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے ہی قتل عام کے جواز کا سبب بنا یا جا ئے اوردوسری طرف غیر مذہبی طبقو ں میں اسلام سے متعلق نفرت اور خدا بیزاری پیدا کی جاتی ہے گو یا کہ مسلمان دو متشدد گروہوں کے فکری انتشار کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

پہلا طبقہ ان مذہبی متشدد گروہوں کا ہے جو قرآن و سنت کے علم سے نا واقفیت کی بنیاد پر دین کی ایسی تعبیر و تشریح کرتے ہیں جس کی وجہ سے دین پر عمل دور جدید میں نا ممکن ہو جاتا ہے جب کہ دوسرا طبقہ ان لبرل فاشسٹ کا ہے جو اسلام کے خلاف غیر ملکی ایجنڈے کے تحت یا اپنی بد طینت کی وجہ سے اپنی زبان اور قلم کا زور صرف کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے بے حیائی اورآوارگی کو عام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے اٹھا یا جانے والا ہر قدم ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی خلیج کو مزید بڑھا دیتا ہے ۔

 خوارج نے حضرت علیؓ ،حضرت عثمانؓ،حضرت طلحہؓ،حضرت زبیرؓ ،حضرت عائشہ صدیقہؓ  اور حضرت معاویہؓ کی نعوذ باللہ تکفیر کی اور ہراس صحابی کو نعوذ باللہ کافر کہا جو ان کی رائے میں گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے۔ امام عبد القاہر نے ‘’اصول الدین‘‘ میں ان کے ایک فرقے ”ازارقہ “کا بھی ذکر کیا ہے جو یہ گمان کرتے تھے کہ ان کے مخالفین مشرکین ہیں ۔آپ فرماتے ہیں :

قالوا بتکفیر علی و عثمان و طلحہ و الزبیر و عائشہ و اصحاب الجمل و بتکفیر معاویہ و الحکمین رضی اللہ عنہم و تکفیر اصحاب الذنوب من ھذہ الامہ ۔۔۔ حتیٰ ظھرت الازارقہ منھم فزعموا ان مخالفیھم مشرکون ۔۔۔موافقھم و استحلوا قتل النساء و الاطفال من مخالفیھم و زعموا انھم مخلدون فی النار و اکفروا القعدة منھم عن الھجرة الیھم (۱)

شہرستانی نے خوارج کے چھ بڑے فرقوں کا ذکر کیا ہے :

1-ازارقہ

2-۔نجدات

3-۔صفریہ

4-عجاردہ

5-اباضیہ

6-ثعالبہ

خوارج کے چھ بڑے فرقوں کا تذکرہ ہم اگلی قسط میں کریں گے۔

جاری ہے

Print Friendly, PDF & Email