The news is by your side.

شاہراہ ریشم پرسفرکرتی گندھارا تہذیب

تاریخ کی طالبعلم اور بعد ازاں تاریخ کی استاد ہونے کی حیثیت سے میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں ان جگہوں کا دورہ کروں جنہیں ہمیشہ میں نے کتابوں میں پڑھا۔ ان مقامات پر جا کر اس کیفیت کو محسوس کرنا، کہ آج سے ہزاروں سال قبل یہاں عظیم الشان تہذیبوں نے پرورش پائی، زندگی کا ایک شاندار تجربہ ہوتا ہے۔

میرا یہ خواب اس وقت پورا ہوا جب چین کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ کی جانب سے مجھے 6 ماہ کی پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو شپ کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ فیلو شپ بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی میں تکمیل پانی تھی۔

یہاں پر میرے تحقیقی مقالے کا مضمون ’گندھارا تہذیب کی تصویر کشی (آرٹ) اور اس کا چین میں پھیلاؤ‘ تھا۔ چین میں مجسمہ سازی گندھارا آرٹ سے متاثر ہو کر شروع کی گئی۔ گندھارا آرٹ وہ آرٹ ہے جو بدھ مذہب کے ماننے والوں نے شروع کیا اور اسے ’بدھسٹ آرٹ‘ کہا جاتا ہے۔

یہ آرٹ کسی ایک ملک میں محدود نہیں رہا اور شاہراہ ریشم (سلک روڈ) کے ذریعہ بین السرحدی بن گیا۔ یہ آرٹ جہاں بھی گیا وہاں اس نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔

زیر نظر تحریر میں، میں نے ان تمام مقامات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جہاں کا دورہ کرنے کا مجھے موقع ملا۔ یہ مقامات چین کے قدیم تاریخی مقامات ہیں اور یہ چین کے صوبوں گنسوShanxi, (Gansu), Shaanxi اور ہنان (Henan) میں واقع ہیں۔

تحقیقی مقالے پر کام کرتے ہوئے ابتدائی طور پر میں نے ینگنگ Yungang اور ڈنہنگ Dunhuang کے قریب موگاؤ Mogao غاروں کا دورہ کرنے کا سوچا۔ یہ دونوں مقامات چین میں ہندوستانی اور گندھارا بدھسٹ آرٹ کو پیش کرتے ہیں۔

مگاؤ – گنسو

مئی 2016 میں چین پہنچنے کے بعد مجھے اپنی ملازمت اور روز مرہ کے معمولات سے فرصت ملی تو مجھے مطالعہ کرنے اور اپنے تحقیقی مقالے میں شامل مقامات کا دوبارہ دورہ کرنے کا موقع ملا۔

لیکن چین میں قیام کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ صرف ان دو جگہوں کا دورہ کرنا اپنے ساتھ ناانصافی ہوگی اور یہ میرے مقالے کے جامع ہونے کے مقصد کو بھی پورا نہیں کرسکے گی، جس کے بعد میں نے اپنے مطالعاتی دورے کے منصوبے کو وسعت دی اور اس میں مزید کچھ مقامات شامل کرلیے۔

ینگنگ اور مگاؤ کے ساتھ لانزو Lanzhou کے قریب بنگلینگ Bingling، تیانشوئی Tianshui کے قریب میجیشن Maijishan غار اور لیویانگ Luoyang میں لونگ مین Longmen کا دورے کو بھی میں نے اپنے منصوبے میں شامل کرلیا۔

میں نے مشہور تریکوٹا Terracotta آرمی کا دورہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا، گو کہ یہ میرے مقالے سے ایک غیر متعلق مقام تھا، لیکن میں نے اس کے بارے میں بہت پڑھا تھا اور میں یہاں جانا چاہتی تھی۔

ڈیٹونگ کی متروکہ مسجد

میں نے اس میں زی آن Xi’an کا دورہ بھی شامل کرلیا جو شاہراہ ریشم کا مقام آغاز تھا جس پر میں بدھا کے تاریخی خزانوں کو ڈھونڈنا چاہتی تھی۔

شاہراہ ریشم ۔ فن و ثقافت کی شاہراہ


شاہراہ ریشم وسطی ایشیا کے ذریعہ چین اور مغربی ممالک کو ملانے کا ایک اہم تجارتی ذریعہ تھا۔ اسی راستے سے بدھ مذہب اور بدھ آرٹ پورے چین میں پھیلا۔

اسی راستے سے بھارت، مصر، ایران (فارس)، اور روم کے درمیان مذہبی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی نظریات کا بھی تبادلہ ہوا۔ اس کا نام سلک روڈ پہلی بار جرمن ماہر ارضیات فرنینڈ وان نے انیسویں صدی میں اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ چونکہ یہ ریشم اور ریشم کی مصنوعات چین سے لے کر دنیا کے دوسرے حصوں تک پہنچتی تھی، اس کی وجہ سے اس نے اسے شاہراہ ریشم کا نام دیا۔

شاہراہ ریشم کے ذریعہ ماضی کی اہم تہذیبوں کو آپس میں جوڑنے کا سہرا چین کے ہان خانوادے (207 قبل مسیح تا 220 عیسوی تک) کو جاتا ہے۔ اس میں سب سے بڑا کردار شہنشہاہ وو Wu کا ہے جو 156 قبل مسیح سے 87 عیسوی تک حکومت میں رہا اور وہ مغرب سے تجارتی تعلقات استوار کرنا چاہتا تھا۔

شاہراہ ریشم کئی ذیلی راستوں پر مشتمل ہے جن میں سے شمالی راستہ قدیم دارالحکومت لیویانگ Luoyang (ہنان صوبے) اور زی آن Xi’an (قدیم نام چانگ آنChang’an، شان زی Shaanxi صوبے) سے شروع ہوتا ہے جو چین کے صوبے گنسو Gansuسے گزرتا ہوا شمال مغرب کی طرف جاتا ہے۔

بنگلنگ – گنسو

یہ راستہ مزید 3 حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان میں سے 2 شمال میں پہاڑی سلسلوں اور جنوب میں کاشغر کے ساتھ تکلاماکان Taklamakan صحرا کی طرف جاتے ہیں۔ تیسرا ترپان Turpan اور موجودہ قازقستان کے ذریعہ شمال میں تیانشان Tianshan پہاڑوں کی طرف جاتا ہے۔

یہ راستے کاشغر سے مغرب کی جانب آگے جا کر مزید تقسیم ہوجاتے ہیں اور ایک راستہ موجودہ ازبکستان اور افغانستان کے بلخ کی جانب جاتا ہے جبکہ دوسرا فرغانہ سے ہوتا ہوا صحرائے قراقرم جا پہنچتا ہے۔

یہ دونوں راستے ترکمانستان کے علاقے مرو میں داخل ہونے سے پہلے ایک بار پھر آپس میں مل جاتے ہیں۔ مغربی روٹ کی ایک شاخ شمال مغرب میں سفر کرتی ہوئی بحر اسود کی جانب چلی جاتی ہے۔

شاہراہ ریشم کے راستے میں پڑنے والے شہر اپنی تجارت، فن اور ثقافتی سرگرمیوں کی وجہ سے ثقافتی مرکز سمجھے جاتے تھے۔ ان شہروں کی تاریخ، سحر انگیز ثقافتیں اور شاندار ماحول ان سیاحوں کو دنگ کردیتی ہیں جو اپنی معلومات میں اضافے کے لیے ان شہروں کی سیر کرتے ہیں۔

ینگنگ کے غار


شہر ڈٹونگ Datong (قدیم نام پنگ چینگ Pingcheng) گو کہ شاہراہ ریشم سے دور واقع تھا، لیکن اس دور کی عظیم چینی ثقافت کے اثرات اس پر بھی تھے۔ یہ میرے سفر کا پہلا شہر تھا جس کو دیکھنے کے بعد میں بری طرح اس کے سحر میں گرفتار ہوگئی۔

ڈٹونگ ہان Han خانوادے کے دور حکومت میں آباد کیا گیا تھا۔ یہ شمال میں حکمران وئی Wei خانوادے کے دور میں 398 عیسوی سے 494 عیسوی تک اس سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ میں نے جب اس شہر کے بارے میں انٹرنیٹ پر دیکھا تو پتہ چلا کہ یہاں موجود معلق خانقاہ یا Hanging Monastery ایک قابل دید مقام ہے۔

ڈیٹونگ کی سڑک کا ایک منظر

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ معلق خانقاہ کا یہ مقام اپنے آس پاس کے حسین محل وقوع کے باعث دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتا ہے۔ یہی نہیں اس خانقاہ میں 3 مذاہب بدھ ازم، تاؤ ازم، اور کنفیوشس ازم کے ماننے والے ایک ساتھ عبادت کرتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے یہ خانقاہ اب تک فعال ہے۔

ڈٹونگ میں ہی ینگنگ کے غار ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے میں ڈٹونگ آئی تھی۔

ینگنگ نامی یہ غار ڈٹونگ سے 16 کلومیٹر کے فاصلے پر زوہو شن Wuzhou Shan نامی پہاڑ کے دامن میں واقع ہیں اور مشرق سے مغرب تک تقریباً ایک کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

انسانی ہاتھوں سے تراشے گئے ان غاروں کی تعمیر کا آغاز 5ویں صدی عیسوی میں وئی خانوادے کی سرپرستی میں کیا گیا۔

اس عظیم الشان تعمیری منصوبے کی نگرانی کے لیے شہنشاہ کی جانب سے راہب تان یاؤ Tan Yao کو تعینات کیا گیا۔ یہ منصوبہ 50 سال کے طویل عرصہ میں مکمل کیا گیا۔

وہائٹ ہارس پگوڈا – ڈنہنگ

ان غاروں میں تقریباً 51 ہزار مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو گندھارا، چینی، یونانی اور انڈین فن کے اثرات کا مجموعہ ہیں۔ پچھلے 15 سو سالوں میں یہ غار جنگوں، قدرتی آفات اور آب و ہوا کی وجہ سے کافی خستہ حال ہوچکے ہیں۔ سنہ 2001 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

لانزو کا سفر


میرے دوسرا پڑاؤ لانزو Lanzhou شہر میں تھا۔ بنگلنگ کے غار (جس کا مطلب دس ہزار بدھا ہے) لانزو کی یونگجنگ Yongjing کاؤنٹی سے 35 کلومیٹر مغرب کی جانب واقع ہیں۔

اس غار تک پہنچنے کا سفر بذات خود ایک مہم جوئی ہے جو زرد دریا Yellow River میں موٹر بوٹ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ یہ دریا چین کا تیسرا بڑا دریا ہے جس کے آس پاس بنجر چٹانوں کا نظارہ نہایت خوبصورت لگتا ہے۔

بنگلنگ غاروں کا ایک سلسلہ ہے جس میں دریا کے ساتھ موجود قدرتی غاروں کے اندر بدھا کے مجسمے بنائے گئے ہیں۔ ان مجسموں کی تعمیر کا آغاز مغرب کے جن Jin خانوادے (265 عیسوی تا 316 عیسوی) کے دوران ہوا اور اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی اس کی سرپرستی کی۔

ڈنہنگ کا سفر


اس کے بعد ہماری اگلی منزل ڈنہنگ Dunhuang کا شہر تھا جو عجائبات کا شہر ہے۔ یہ صحرا کے بیچ میں واقع ایک شہر ہے جسے نخلستان کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ منظم انداز میں قائم یہ شہر نہایت خوبصورت ہے۔

مگاؤ کے غار ڈنہنگ کے جنوب مشرق میں واقع ہیں۔ یہ شاہراہ ریشم کے اہم موڑ پر واقع ہیں جو نہ صرف تجارتی بلکہ مذہبی، ثقافتی اور ادبی اثرات کے تبادلوں کا بھی مرکز تھا۔ مگاؤ کے 492 غار اپنے مجسمات اور دیواروں پر بنی تصاویر کی وجہ سے بہت مشہور ہیں جو بدھسٹ آرٹ کے 1000 سالہ ارتقا پر مشتمل ہیں۔ یہ غار دنیا بھر میں بدھسٹ آرٹ کے سب سے بڑے اور قیمتی ترین مراکز ہیں۔

ان غاروں کی تعمیر 366 عیسوی میں شروع ہوئی اور چودہویں صدی عیسوی تک جاری رہی۔ اس دوران بدھسٹ آرٹ میں جو ارتقا ہوا، یہ اس کے اثرات بھی پیش کرتے ہیں۔ ہر غار میں قد آدم تصویر، منقش مجسمے، قدیم انداز سے کی گئی مختلف تعمیرات اور آثار قدیمہ موجود ہیں اور ایک چھت کے نیچے فن و مصوری کا اس قدر بڑا ذخیرہ فن اور سیاحت کے شوقین افراد کے لیے بے حد کشش کا باعث ہیں۔

مگاؤ کا آرٹ قدیم چینی، گندھارا، ترک اور تبتی آرٹ کا مجموعہ ہے اور انہیں بدھسٹ آرٹ کا شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں موجود تمام غار سیاحوں کے لیے کھلے نہیں تھے جس نے مجھے تھوڑا مایوس کیا۔

تنشوئی کی سیر


تنشوئی Tianshui جسے ’جنت کے پانیوں کا شہر‘ بھی کہا جاتا ہے ہماری اگلی منزل تھا۔ یہاں موجود میجیشن Maijishan غار، غاروں کا ایک سلسلہ ہے جن کی کل تعداد 194 ہے اور یہ میجیشن کے پہاڑ کو کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

ان غاروں میں 7 ہزار 2 سو کے قریب بدھسٹ آرٹ کے مجسمے موجود ہیں۔ ان کے ساتھ 1 ہزار اسکوائر میٹر کے رقبہ پر میورلز (دیوار پر قد آدم تصاویر) لگائے گئے ہیں جن پر وسطی ایشیا کے فن کے اثرات نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مقام ان راستوں پر واقع ہے جو چین اور وسطی ایشیا کو آپس میں ملاتے ہیں۔

ان غاروں کی تعمیر چوتھی صدی عیسوی کے اواخر میں شروع ہوئی جو ایک طویل عرصہ تک چلتی رہی۔ اس دوران بدھسٹ آرٹ کا ارتقا بھی جاری رہا جس کے اندازہ ان مجسموں کی بناوٹ کے تنوع سے پتہ چلتا ہے۔ غاروں کے آس پاس کے مناظر بھی نہایت شاندار ہیں جو سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہیں۔

ژی آن کا سفر اور موت کے بعد حفاظت کرنے والی فوج


اس سفر کے دوران میں ژی آن Xi’an میں بھی رکی جو چین کے 4 قدیم دارالحکومتوں میں سے ایک تھا۔ یہاں پر مجھے ٹری کوٹا آرمی سائٹ اور دیگر تاریخی عمارتوں کا دورہ کرنا تھا اور کچھ یادگار اشیا souvenir کی خریداری بھی کرنی تھی۔

ٹریکوٹا فوج کی یادگار دراصل 209 قبل مسیح سے 210 قبل مسیح کے درمیان چین کے پہلے حکمران شی ہانگ تی Shi Huang Ti کے ساتھ دفن کی گئی تھی۔ اس وقت کے عقائد کے مطابق یہ فوج شہنشاہ کی بعد از موت کی زندگی میں اس کی حفاظت کرنے کے لیے یہاں دفن کی گئی۔

نو ڈریگنوں والی دیوار – ڈیٹونگ

میں اپنے ایک دوست کی تجویز پر بیونمان Beiyuanmen مسلم فوڈ اسٹریٹ بھی گئی۔ یہاں کے لذیذ کھانوں سے ہم بے حد لطف اندوز ہوئے۔ ژی آن میں گزارا گیا وقت بہت شاندار تھا اور اس نے مجھ پر اپنی انمٹ یادیں چھوڑیں۔

وسطی چین میں لویانگ Luoyang شہر جو لؤ Luo دریا اور یی Yi دریا کے سنگم پر واقع ہے، ایک اور قدیم چینی دارالحکومت ہے۔ بیجنگ واپس جانے سے قبل یہ میرے سفر کا آخری پڑاؤ تھا۔

ہنان صوبے کی کاؤنٹی ڈنگفنگ Dengfeng میں واقع شاؤلین Shaolin نامی مندر 1500 سال قدیم ہے۔ شاؤلین کی عبادت گاہ اور پگوڈے کا جنگل ایک عرصے تک معروف بدھ رہنماؤں کی قیام گاہ رہا اور اس کے سحر انگیز ماحول میں آج بھی تاریخ کی صدائیں گونجتی نظر آتی ہیں۔

یہاں سیاہ لبادے میں جنگجؤں کا روپ دھارے افراد جنہیں ننجا کہا جاتا ہے، کا مارشل آرٹ کا مظاہرہ قابل دید تھا۔

یہاں موجود لانگ مین Longmen کے غاروں میں دیوار کے اندر چینی بدھاؤں کے مجسمے موجود ہیں۔ یہ مجسمے قدیم چین کے تانگ Tang اور شمال کی وئی خانوادوں کے دور میں پنپنے والے فن کا مظہر ہیں۔

دریائے یی کے دونوں طرف موجود 23 ہزار غاروں کے سلسلے میں 1 لاکھ 10 ہزار کے قریب مجسمے تراشے گئے ہیں۔ ان غاروں کی تکمیل پانچویں سے آٹھویں صدی عیسوی کے درمیان مکمل ہوئی۔ یہاں موجود کئی مجسمے گندھارا آرٹ سے بھی کافی مشابہت رکھتے ہیں۔

ینگانگ گروٹس – ڈیٹونگ

قصہ مختصر، ان ثقافتی مقامات کی سیر کرنا ایک طرف تو میری معلومات میں بے پناہ اضافے کا سبب بنا، دوسری جانب مجھے ان غیر معمولی اقدامات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جو چینی حکومت نے ان قدیم تاریخی مقامات کو محفوظ رکھنے کے لیے اٹھائے ہیں۔ ان اقدامات نے مجھے بہت متاثر کیا۔

شاہراہ ریشم کے ذریعہ سفر مجھے قدیم دور میں کھینچ کر لے گیا اور میں نے خود کو ان گزرے ہوئے وقتوں کا مسافر محسوس کیا جب فنکار بدھا سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے غاروں میں بلند قامت اور عظیم الجثہ مجسمے تراشا کرتے تھے۔

میں نے اپنے زمانہ طالب علمی اور تدریس کے دوران شاہراہ ریشم کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا لیکن اس مقام پر بذات خود موجود ہونا ایک خواب جیسا تھا۔ یہاں پر سفر کرنا زندگی کا سب سے شاندار تجربہ ہے۔ چین کے لوگ چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین بہت حوصلہ مند اور محنتی ہیں اور انہوں نے ہر ضرورت کے وقت میری بھرپور مدد کی۔ یقیناً یہ میری زندگی کا ایک ناقابل فراموش سفر تھا۔

Print Friendly, PDF & Email