ہمارے ملک میں ایک مخصوص طبقے کے افراداپنے موسمی بخار کے علاج کیلئے بھی دیارِ غیر کا رخ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے ڈاکٹر صاحبان نااہل ہیں بلکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس طبقے کہ لوگ اپنے کئے کرتوتوں سے کس قدر شناسا اور خوفزدہ ہیں۔
اس طبقہ سے پاکستان کی محبت میں سرشار عوام الناس کا کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ لوگ کسی شجرِ ممنوعہ کی مانند ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی بھی کام بغیر کسی سفارش کے یا رشوت کے ہونا کسی حد تک نا ممکن ہے۔ سفارشوں اور رشوت بازاری کے باوجود ایک عام آدمی کو دھکے کھانے ہی پڑھتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی خاص مقاصد کیلئے لگنے والی لائنوں میں کھڑے بزرگ اپنی ناتواں زندگیوں کی بازیاں بھی ہار چکے ہیں۔یہ لائنیں اجناس کی تقسیم کیلئے لگائی گئیں یا پھر ایسے ہی کسی فلاحی مقصد کیلئے۔
پاکستانیوں میں جہاں مختلف پیشہ وارانہ شعبوں میں کارگردگی دکھانے کیلئے حصول تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تو دوسری جانب ہم پاکستانی سستے اور بغیر محنت کئے اور بغیر پڑھے لکھے مشہور یا روپے پیسے تک رسائی کیلئے سیاستدان بننے کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔ جنہیں آتا جاتا کچھ نہیں مگر سارا سارا دن شاہراہیں ان کی آمد و رفت کیلئے بند رہتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جو جتنا اچھا اور دلفریب جھوٹ بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ سیاست کا دمکتا ستارہ کہلاتا ہے۔
ہم ثابت کرتے رہتے ہیں کہ ہم تقسیم ہیں
پاکستان کی سیاسی جماعتیں داخلی کم اور خارجی اثرو رسوخ زیادہ رکھتی ہیں جس سے یہ اخذ کرنا تو آسان ہوہی جاتا ہے کہ ان جماعتوں کا ایجنڈا داخلی معاملات کو سلجھانا ہے کہ خارجی املا (ڈکٹیشن) پر کام کرنا ہے۔ آج کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی اب اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ ہمارے ملک کی محترم ترین شخصیت اپنی سالگرہ کا کیک ایک طرف تو اپنی والدہ کو کھلاتے ہوئے اور اپنی بیگم صاحبہ سے کھاتے ہوئے ساری دنیا کہ سامنے ہیں۔ یہ سب اچھا ہے آپ کی خاندانی اقدار کا پتہ چلتا ہے اور آپ کی عوام میں موجودگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔محترم وزیرِاعظم صاحب اللہ آپ کو ایمان اور صحت کیساتھ لمبی عمر دے مگر آپ کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے اپنے وطن عزیز کی اس عوام کا خیال کیوں نہیں آتا جو ایک ایک وقت کی روٹی کیلئے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ وزیرِ اعظم صاحب آپ پاکستان کے وزیرِاعظم ہیں عوام نے آپ کو اپنے لئے روزی روٹی علاج معالجے کا انتظام کرنے کیلئے ووٹ دئیے۔ مگر آپ کبھی اپنے سچے یا جھوٹے علاج کیلئے لگ بھگ ڈھائی تین مہینے بیرونِ ملک رہے اور یقیناً ملک کے خزانے کو ایسا مہنگا ترین علاج کم ہی کروانے کا موقع ملا ہوگا۔ آپ کو اپنی عوام کا صرف اتنا ہی خیال ہے کہ آپ ان کے ووٹوں کی بدولت وزیرِاعظم بنے بیٹھے ہیں۔ کیا آپ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ میں ان لوگوں کیلئے جو اس ملک کا ایندھن ہیںان کے لیے کیا کیا ہے اور اپنے کبھی یہ سوچا کہ میں تیسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان ہوں عام آدمی کی زندگی میں کیا بہتری لایا ہوں۔ آپ کو اپنی خوش خوراکی اور ہوا خوری سے فرصت ملے تو آپ دیکھیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں لوگ اپنے پیاروں کے علاج کیلئے کس طرح بے یارو مددگار پڑے ہوتے ہیں اور علاج نا ملنے پر اپنے مریض کی موت کا انتظار بہت تحمل سے کرتے ہیں۔ مگر آپ کیلئے یہ سب دکھ کی باتیں نہیں ہیں۔ آپ تو کسی عام آدمی سے ہاتھ بھی ملائیں تو پھر لاتعداد مرتبہ آپکا ہاتھ دھلایا جاتا ہے جیسے کوئی مقدس چیز ناپاک ہوجائے۔ کیونکہ آپ کا خاندان ان تمام تر الائشوں اور گندگیوں سے پاک جگہوں کے عادی ہیں اور اگر کبھی ایسی کسی جگہ جانے کا سوچ بھی لیں تو اس جگہ کی قسمت بدل جاتی ہے۔
یہ وہ مسئلہ ہے جو صرف پاکستان کی صرف ایک سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔سابق صدر جناب پرویز مشرف صاحب کو لے لیجئے، پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین اور سابق صدر جناب آصف علی زرداری صاحب کو لے لیجئے، متحدہ قومی مومنٹ نے برسا برس کے بعد اپنی خارجی قیادت سے جان چھڑوائی ہے، بلوجستان کی سیاسی جماعتوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہ تمام معززین پاکستان کے حکمران ہیں۔
تمام سیاستدانوں کو 20 کروڑ عوام جلسے اور جلوسوں یا کسی احتجاج میں کیلئے یاد آتی ہے بصورتِ دیگر یہ حضرات انتخابات میں منتخب ہوکر سال ہا سال اپنے ذاتی الزامات کے دفاع میں یا پھر دوسرے پر الزامات لگانے میں لگے رہتے ہیں۔ ایک بار پھر انتخابات وقت قریب آرہا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمارے ملک کے اس مخصوص طبقے کو عوام کی ضرورت پڑنے لگتی ہے اور یہ اپنا زیادہ تر وقت اس عوام کے ساتھ یا سامنے گزارنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو اس عوام کی معصومیت کی کوئی حد ہی نہیں ہے تحریکِ پاکستان سے لے کر آج تک وطنِ عزیز کیلئے اور وطنِ عزیز کے نام پر بے دریغ قربانیاں دیتی آرہی ہے۔ کوئی ’قرض اتارو ملک سنوارو‘کے نعرے لگا کر لوٹ گیا تو کبھی اس قوم نے اپنی مدد آپ کے تحت قدرتی آفات سے اپنے ہم وطنوں کی امداد کی اور ہر طرح سے ایک دوسرے کا خیال رکھا۔
اب یقیناً وقت آن پہنچا ہے کہ ہم پاکستانی تحمل اور بردباری سے، تعصب اور انارکی سے آزاد ہوکر اپنے مفاد کی بقاء اور پاکستان کی سالمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے، اپنے آنے والے کل کا اپنی آنے والی نسل کا فیصلہ کریں، ایسے لوگوں کو جن میں سچ بولنے اور برداشت کرنے کا جذبہ ہو، جن کی نسلیں پاکستانی ہوں، جن کا رہن سہن ہم سا ہو، جو ہماری تکلیفوں کو ہماری مشکلوں کو سمجھتے ہوں، جو ٹوٹی سڑکوں اور گٹر کے پانیوں میں سے گزرتے ہوں، جن کے بچے ہمارے بچوں جیسے اسکولوں میں پڑھتے ہوں، جن کا علاج معالجہ ہمارے ساتھ ہی یا ہم جیسا ہی ہو، جو احساس اور محبت سے لبریز ہوں، جنہیں قانون سے کسی قسم کا کوئی خوف نا ہو، جن کا پکڑنے والا کوئی ہاتھ نا ہو۔ ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم پاکستانیوں کا قیمتی ترین اثاثہ ہمارا ’ووٹ‘ ہے۔ ہم اپنی اس طاقت کو اس ووٹ کو پچھلے ستر سالوں سے ضائع کر رہے ہیں مگر اب کی بار ضائع مت کرنا۔ ورنہ تمھیں دفن ہونے کیلئے بھی جگہ میسر نہیں ہوگی۔ 20کروڑپاکستانیوں اپنی حقیقت کو اپنی طاقت کو اب نہیں تو کب پہچانوگے۔