سال 2016 اختتام پذیر ہوچکا، کھونے پانے کی باتیں وقت کو ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ دیواروں پر لٹکے 2016 کے کلینڈر تبدیل کردیئے گئے ہیں ابھی بھی کچھ ایسے گھر ہوں گے یا کچھ ایسی جگہیں ہوں گی جہاں نا جانے کب سے کسی نے کلینڈر نہیں بدلنا گوارہ نہیں کیا ہوگا معلوم نہیں وہ ابھی تک 2010 یا 2012 کے کلینڈر کی تصویریں ہی دیکھ دیکھ کر گزارا کر رہے ہونگے۔ دنیا کی ترقی کا منہ بولتا ثبوت اور ایک اہم ترین ایجاد موبائل فون ہے جو نا صرف آپ رابطے کیلئے استعمال کرتے ہیں بلکہ یہ آپ کو وہ تمام سہولیات فراہم کرتا ہے جس کی آپ کو ضرورت ہوتی ہے وقت جاننے کیلئے آپ کو اب کسی گھڑی کی ضرورت نہیں رہی، تاریخیں یاد رکھنے اور ان تاریخوں پر اپنی ملاقاتوں کو لکھنے کی ذمہ داری بھی اس موبائل فون نے اٹھالی ہے، صبح اٹھنے کیلئے آپ کو آلارم یا گھنٹی کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے غرض یہ کہ آپ کی ہر ضرورت پوری کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی قطعی نہیں کہ لوگوں نے کلینڈر لگانے چھوڑ دئے ہوں یا پھر ہاتھوں میں یا گھروں میں گھڑیاں لگانی چھوڑ دیں ہیں یا پھر کمپیوٹر کا استعمال چھوڑ دیا ہے، ہر چیز اپنی اپنی جگہ اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ ہم کسی سے پیچھے رہنے والے نہیں ہیں۔
نئے سال کا بھرپور طریقے سے استقبال کیا اور خوب آتش بازی کے ساتھ ساتھ کیک بھی کاٹے گئے حالانکہ نئے سال کی آمد ہم پاکستانیوں کیلئے ہندسوں کی تبدیلی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ تبدیلی کا لفظ سنتے ہی لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ تو بھاگنے کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے نئے سال کی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب اعلیٰ فوجی قیادت میں تبدیلی ہوئی اور اعلی ٰعدلیہ میں بھی تبدیلی آگئی۔ پانامہ اسکینڈل وزیرِ اعظم اور انکے خاندان کے گلے کا ہار بنا ہوا ہے دیکھنا یہ کہ ہار ‘ ہار ہی رہتا ہے یا پھر کس قسم کا کوئی پھندا تو نہیں بن جاتا۔
موقع شناس صاحب وطنِ عزیز میں قدم رنجا فرما چکے ہیں اور لگتا ہے کہ جیسے جناب فوج میں ہونے والی اہم ترین تبدیلی کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دفاعی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرنے کو کہا اور وہ کرتے رہے۔ اب کہیں جا کہ پارٹی کا گئیر تبدیل کیا اور اپنی مفاہمتی سیاست کو ترک کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اب جبکہ انتخابات کسی حد تک قریب پہنچ چکے ہیں تو اپنی حکومتی مخالفت کا چرچا ذرا شور شرابا کر کے کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی اس بے حس پاکستانی قوم کو ایک صدمہ بلاول کو اسمبلی میں بٹھوا کر بھی سہنا ہے۔ ایسے لوگ ملک کے پیچ وخم سے ناواقف ہیں جنہیں ہم اپنی قسمت کا فیصلہ سونپ دیتے ہیں۔
تحریک ِ انصاف پہلے دن سے میاں صاحبان کے پیچھے نہا دھو کر پڑی ہے ۔ ایک بار پھر وہ وقت قریب آتا دیکھائی دے رہا ہے جب وزیرِاعظم کو سرکاری گھر خالی یا تبدیل کرنا پڑے گا (سمجھ تو گئے ہوں گے)۔
آخر پاکستان کے معززین کی اکثریت کو عام لوگ یا پاکستانیوں کی اکثریت اچھانہیں سمجھتی اچھے لفظوں سے تذکرہ نہیں کرتی بلکہ کسی پر بھروسہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی پولیس پر عوام کا بھروسہ نہیں کچھ کہتے ڈرتے ہیں اپنے مسئلے خود ہی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ کو بھاری تنخوائیں اور مراعات عملے کو میسر ہیں مگر انصاف نام کی کوئی چیز عام آدمی کو میسر نہیں چاہے غریب کے بچوں پر بہیمانہ تشدد کیا جائے یا پھر جنسی بے راہ روی کیلئے استعمال کیا جائے اندھے قانون دان اور اس سے رکھوالے کسی کو کچھ نظر نہیں آتا۔ بس جو کمزور ہے جو لاچار ہے جو مظلوم ہے اسے پیسے جاؤ کوئی حال احوال کیلئے نہیں آئے گا۔ پھر ایک ایسا طبقہ نمودار ہوگا جوان ’بیچاروں اور بیچاریوں‘ سے گلے ملے گا اور اپنے ساتھ بٹھوا کر خوب تصویریں بنوائے گا، سوشل میڈیا پر یہ تصویریں ہر آنکھ سے گزرے گی اخبارات میں بھی دیکھی جائے گی اور تو اور ٹیلی میڈیا بھی ان کو اپنی اسکرینوں کی زینت بنائے گا۔ مگر زخم بھر جائنگے وقت گزر جائے گا ان ’بیچاروں اور بیچاریوں‘ پر مٹی ڈال دی جائے گی۔بس حبیب جالب صاحب کہ شعر پرمضمون ختم کروں گا کہ
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
ہمیں دنیا کے سامنے مذاق بنوادیا ہے ایک پاکستانی جو دنیا کے رسم و رواج سے نا واقف ہے مگر جو واقف ہیں جو وہاں جاتے ہیں جو اپنا کالا دھن بھی وہی چھپاتے ہیں ان ہی لوگو ں نے پاکستان کوساری دنیا میں مذاق بنوایا ہے۔ ہم پاکستانی عوام ان سیاست دانوں کیلئے کسی تماشے سے زیادہ نہیں ہیں۔