The news is by your side.

شبِ معراج اورٹائم ٹریول کا نظریہ

میرا یہ قلم عاجز ہے کہ اس عظیم ہستی پرچند سطریں بھی تحریر کر سکوں جو حبیب ِ خدا ، سرورِ کونین اور رحمت العالمینﷺ ہیں ۔ جن کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ صدیوں بعد بھی ان کے فدائی اور امتی دنیا کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میرے قلم کو کتنی طاقت کیوں نہ عطا کردی جائے میرے الفاظ یقیناً حق ادا کرنے سے قاصر رہیں گے سو میں اسی موضوع کو زیرِ بحث لانا چاہوں گی جس کی استطاعت خدائے بزرگ و برتر نے مجھ ناچیز کو دی ہے۔

عموماً مذہب اور سائنس کو دو علیحدہ بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے کی زد بھی سمجھا جاتا ہے مگر سائنس کی اصل سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ایسا ہر گز نہیں سمجھتے ، بلکہ وہ تدبر اور غور و فکر کے ساتھ قرآن کی آیات پر سے وہ دبیز پردے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جو صدیوں سے منتظر ہیں کہ مسلمان ان کے عقدے وا کریں۔ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ مسلم سکالرز کی علمی قابلیت بڑھنے کاباعث قرآنی آیات کے ذریعے کئی سائنسی قوانین کی مزید وضاحت ممکن ہوئی ہے۔

اسی طرح کئی تاریخی واقعات ایسے ہیں جنھیں اوسط درجے کی ذہانت رکھنے والے لوگ معجزہ قرار دے کر ان کی گہرائی میں جانا پسند ہی نہیں کرتے بلکہ لاعلمی یا کم فہمی کے باعث ان کے متعلق عجیب و غریب قیاسات نسل در نسل منتقل ہوتے رہیں ، انہی میں ایک قابل ذکر ’’واقعۂ معراج‘‘ بھی ہے ۔ تاریخی کتب کے مطابق ستائیس رجب المرجب چھ سو بیس عیسویں کی شب حضور پاکﷺ کو رب الذوالجلال نے آسمانوں کی سیر پر مدعو کیا جہاں حضرت آدم ؑ اور دیگر انبیاء ؑ کو آپﷺ سے ملاقات کا شرف نصیب ہوا ۔ اسی سفر کے دوران حضور ِ پاک ﷺ کو قبلۂ اول ’’بیت المقدس‘‘ بھی لے جایا گیا اور یہ طویل ترین سفر رات کے پچھلے پہر کی ساعتوں میں یوں وقوع پذیر ہوا کہ جب آپﷺ واپس لوٹے تو ہر شے جوں کی توں تھی۔


محبوب ﷺ سے عاشق کی ملاقات کی شب ہے


 اس عظیم الشان واقع پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ بچے بچے کو اس کی تفاصیل ازبر ہیں مگر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ غیر مسلم اس معجزے کو ماننے سے یکسر انکار کرتے چلے آئے ہیں ، مگر صدیوں بعد انہی کے سائنسی قوانین نے اس واقع پر پڑے دبیز پردے اٹھائے ہیں اور’’آئن سٹائن کے بنیادی نظریۂ اضافیت‘‘ کے ذریعے عقلی دلائل کے ساتھ اس واقع کے پیچھے مخفی مضمرات کی پوری تفصیل کے ساتھ وضاحت ممکن ہوئی ہے۔

آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیوٹی کے بنیادی نکات روشنی کی رفتار کے ساتھ سفر اور دو مختلف فریم آف ریفرنس میں اجسام کی حرکت سے متعلق ہیں۔ جس کے مطابق اگر کوئی جسم روشنی کی رفتار کے ساتھ حرکت کرے تو اس کے لحاظ سے کائنات کی ہر شے ساکن ہوجائے گی۔ مزید یہ کہ دو واقعات کے درمیان وقفہ دو آبزرورز کے لیے مختلف ہوگا کیونکہ وہ اسے دو مختلف ریفرنس فریمز سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اس تھیوری کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ’’لورینٹز‘‘ نے ٹائم ڈیلیشن ( وقت کا گھٹاؤ یا بڑھاؤ) کو مکمل گہرائی میں جاکر بیان کیا جس کا مشاہدہ ہم روز مرہ زندگی میں بھی کرتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی شخص بے چینی کے ساتھ کسی واقع یا انسان کا منتظر ہو تو اسے گھنٹہ طویل محسوس ہوگا لیکن وہی ایک گھنٹہ امتحانی مرکز میں بیٹھے پیپر دیتے ہوئے شاگرد کو دس منٹ کی طرح اڑتا ہوا لگے گا ۔ وقت کا یہ فرق ہمارے احساسات کے علاوہ دو مختلف ریفرنس فریمز اور مختلف حالات واقعات میں گرفتار ہونے کی وجہ سے رونما ہوگا۔

اس مختصر وضاحت کے بعد اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں ۔ واقع معراج پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا رہا ہے، کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص رات کے آخری پہر میں آسمانوں کا طویل ترین سفر کرکے لوٹ آئے؟ اس میں ہر گز ہرگز کوئی شک نہیں ہے کہ میرے پیارے رسول ﷺ کی ذات پاک کے اعجاز سے ظہور میں آنے والا ایک معجزہ تھا اور معجزوں کے متعلق عام تصور یہ ہے کہ ان کی عقلی دلیل نہیں دی جاسکتی ، مگر یہاں میں بصد احترام تھوڑا سا اختلاف کرنا چاہوں گی ۔

معجزہ عقل صلب کرنے اور ہوش وحواس سے بیگا نہ کرنے کے لیئے رونما نہیں ہوتا بلکہ اس کے ظہور میں آنے کے پیچھے اصل غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنا دماغ استعمال کرتے ہوئے، اللہ تعالی کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کو کام میں لا کر اس کی عقلی اور فزیکل (مادی) دلیل تلاش کرے۔ اب اگر اوپر بیان کردہ بنیادی نظریۂ اضافیت پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو باآسانی واقعۂ معراج کی وضاحت ممکن ہے ۔

رات کے چند پہروں میں ایک طویل ترین سفر اس لیے ممکن ہوا کہ حضور ِپاک ﷺ کی سواری ” براق ” روشنی کی رفتار سے محوِحرکت تھی جو دنیا میں اجسام کی تیز تر رفتار تصور کی جاتی ہے ۔اس لحاظ سے کائنات کی ہر شے ساکن تھی اور وقت تھم چکا تھا اسی لیئے جب حضور پاک ﷺ زمین ہر اپنے گھر واپس لوٹے تو ہر شے ویسی ہی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گئے تھے ، حالانکہ زمین سے نان آبزرویبل یونیورس ’’ناقابلِ مشاہدہ کائنات‘‘ کا فاصلہ ہرجانب چھیالیس اعشاریہ پانچ کھرب نوری سال ہے۔

یہ طویل فاصلہ رات کے ایک پہر میں کیونکر طے ہوا اس کی وضاحت لوریٹنٹز کی تھیوری سے باآسانی کی جاسکتی ہے ، وہ وقت جو آسمانوں ہر طویل ترین تھا وہ زمین پر سمٹ کر چند ساعتوں میں ڈھل گیا تھا ۔ اس تصور پر سائنس فکشن میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ٹائم ٹریول ہر متعدد موویز بھی بنائی جاچکی ہیں یعنی خلا میں وقت کا تعین تبدیل ہوجاتا ہے ، وہاں کسی اور سیارے پر گزارے ہوئے پانچ منٹ زمین پر پانچ برس بھی ہو سکتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ بھی ۔ سو اب اس حوالے سے قطعا

کوئی کنفیوژن نہیں رہی کہ وقت کا سفر ایک سائنس فکشن تصور ہی نہیں ہے بلکہ میرے مولا کی شان ہے کہ سائنس کائنات کے جن سر بستہ رازوں کو اب منکشف کر رہی ہے وہ انہوں نے صدیوں قبل انسان کو دکھا دیئے تھے ۔

مگر ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم ان عظیم واقعات پر غور و فکر کرکے ’’فلکیات‘‘ پر تحقیق کرنے کے بجائے آپس کے جھگڑوں اور فساد میں پڑے رہتے ہیں ۔ واقعۂ معراج کی تفاصیل پر اگر مزید گہرائی میں جائے تو نہ صرف نظریۂ اضافیت بلکہ آئن سٹائن کی کمیت اور توانائی کی مساوات کی بھی مزید وضاحت کی جاسکتی ہے جس کے مطابق ماس اور انرجی ایک دوسرے میں تبدیل کیئے جاسکتے ہیں اور بنیادی ہییت تبدیل نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ حضورِ پاکﷺ روشنی رفتار سے سفر کرنےکے باجود صحیح و سالم واپس لوٹ آئے کیونکہ روانگی سے قبل حضرت جبریل ؑ نے ان کے قلب اور جسم کو نور سے مزین کیا تھا جو اس سفر میں ان کا محافظ رہا ۔ واللہ عالم بالصواب

بقول سعود عثمانی کے

یہ اک سبق بھی پیمبر ﷺ سے روشنی کو ملا
کہ سب سے تیز سفر جسم ہی کا ہوتا ہے

شاید آپ یہ بھی پسند کریں