اکیس مئی کو عالمی یومِ انسدادِ دہشت گردی کے طور پر منانے کا آغاز بھارت میں سابق وزیرِاعظم اور بھارت کی اکثریتی جماعت کے ہر دلعزیز لیڈر راجیو گاندھی کے ایک جلسے کے دوران خود کش دھماکے میں ہلاک ہونے کے ایک برس بعد ہوا ، اس حملے میں قاتلہ تامل خاتون نے سٹیج پر راجیو گاندھی کے گلے میں مالا ڈالتے ہوئے خود کو بم سے اڑایا لیا تھا۔ اس قتل کے پیچھے کارفرما عوامل کی تفصیلات میں جانا اب بیکار ہے کہ اس طویل عرصے میں ناصرف تامل ناڈوکی باغی تحریک اوراس کے مقاصد زبان زدِ عام ہیں بلکہ اب دنیا کے ہر خطے میں اس طرح کی تحاریک جڑ پکڑ چکی ہیں ۔ تحریکِ طالبان ہو یا عراق و شام میں برسوں سے جاری جنگ وجدل ، یا داعش کی صورت میں عالمی امن پرمنڈلاتا ہوا سیاہ بادل، ہرذی شعور ان سے آگاہ ہے۔ مگر عالمی سطح پر ’’انسداد ِ دہشت گردی‘‘ کا دن منانے سے پہلے ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ دراصل دہشت گردی ہوتی کیا ہے، کس نے دنیا بھر میں خود کش دھماکوں، بہیمانہ قتل و غارت گری کا یہ چلن عام کیا ہے اور فی الوقت دنیا کا سب سے بڑا ’’دہشت گرد‘‘ کون ہے؟۔
ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے عالمی حالات پر نظر ڈالیں تو آئے روز کوئی نہ کوئی خوفناک واردات میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوتی ہے جو اگر کسی یورپین ملک میں ہو تو اس کا کوئی نہ کوئی سرا اسلام اور مسلمانوں سے جا ملتا ہے، لیکن اسی قسم کا کوئی اندوہناک حادثہ یا تخریب کاری کسی ایشیائی ملک خصوصاً پاکستان میں ہو تو ایک لمبے عرصے تک عالمی میڈیا کی توپوں کا رخ اسی طرف رہتا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ سارے عالم میں دہشت گردپاکستان سے سپلائی ہوتے ہیں ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ کچھ ایسا ہی ہے مگر غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں دہشت گردی کی فصل بوئی کس نے تھی؟۔
اگر راجیو گاندھی تامل باغیوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا تو تامل ناڈو کے پر امن شہریوں کو باغی بنانے کے پیچھے اصل عوامل کیا تھے ؟ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے نہتے افغانیوں کے ہاتھوں میں اسلحہ کس نے تھمایا تھا ، کس نےانہیں اس جدید اسلحے کے استعمال کی خطرناک تربیت دی ؟ اگر عالمی طاقتوں کو صدام حسین، معمر قذافی یا بشار الاسد سے خار تھی تو حکومتوں کے بجائے سولین کیوں نشانہ بنتے رہے؟؟ اگر آپ کا کسی گھر کے سربراہ سے تنازعہ ہو تو کیا اس کی پوری ایک نسل کو تباہی و بربادی کے جہنم میں جھونک دینا جائز ہے؟۔
یقیناًاسی طرح کے طرز ِعمل نسل در نسل چلنے والی دشمنیوں کو جنم دیتے ہیں ۔ اگر آج آپ کا دن تھا تو کل مظلوم کا دن بھی ضرور آئے گا کہ مکافاتِ عمل اس کائنات کے عالمگیر قوانین میں سے ایک ہے۔’’کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ۔۔ سو جان لیجئے کہ جس نے اپنی سیاہ رات کاٹ لی ہے آپ اس کے سویرے کو نمودار ہونے سے نہیں روک سکتے۔
آپ نے جنگ جدل، معصوم بچوں کے بہیمانہ قتل ِ عام اور عفت مآب خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی سے دنیا کے مختلف خطوں میں “انتقام” کے جو بیج بوئے تھے وہ آج نشونما پاکر ” آدم خور درختوں” کی طرح ہر شے کو نگلنے کے درپے ہیں ۔عالمی میڈیا جب کسی نئی اندہناک واردات کی کوریج کرتا ہے اور پھر اس پر تحقیق کا آغاز کیا جاتا ہے تو جان بوجھ کر ان تانوں بانوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو کسی نا کسی طرح ” وائٹ ہاؤس، اوول آفس کے مکینوں” یا” پینٹاگون” سے جاکر ملتے ہیں ۔ کیا دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد “ڈونلڈ ٹرمپ” نہیں ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہے کہ” ففتھ ایوی نیو ” کے مرکز میں کھڑا ہوکر کسی کو گولی مار وں تب بھی میرا ایک ووٹ بھی کم نہیں ہوگا۔”
اور حیرت انگیز طور پر اس طرح کے جنونی اور اشتعال انگیز خیالات رکھنے والا شخص دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کا صدر بھی منتخب ہو جاتا ہے، جس نے اپنے شاطرانہ بیانات سے عالمی میڈیا کو گھن چکر بنایا ہوا ہے۔کیا اصل دہشت گرد وہ طاقتیں نہیں ہیں جو ایک اَن دیکھے دشمن کے متوقع حملے سے بچاؤ کے لیئے ایک اسلامی اتحادی فوج بنانے چلی ہیں ، حالانکہ عالم ِاسلام میں اتحاد ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ، مگر یقینا پیسہ بہت بڑی طاقت ہےجس کے بل بوتے پر ہر شے خریدی جا سکتی ہے۔ پھر بھی پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر یہ اتحاد بنایا کس کے خلاف جا رہا ہے؟۔
کیا ہم نے افغان جہاد ، عراق و شام کی خون ریزیوں سے اب بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ؟؟ کیا ہماری حکومتیں نہیں جانتیں کہ طالبان کو ظا لمان بنانے کے پیچھے اصل ہاتھ کس کا تھا؟؟ کیا سعودی عرب کے شاہی فرمارواں لا علم ہیں کہ داعش کو عالمی امن کا سب سے بڑا خطرہ بنانے کے پیچھے کون شدو مد سے کارفرما ہے ؟ جب آپ معصوم عوام کے گھر برباد کرنے، ماؤں کی کوکھ اور سہاگنوں کی مانگیں اجاڑنے کے لیئے ذاتی مفاد کے لیئے بڑی طاقتوں کو ” خفیہ مدد” فراہم کریں گے تو کیا اس بربادی کے بعد بچ جانے والے ستم گزیدہ آپ کے لیئے ہار پھول لیکر کھڑے ہوں گے؟؟ کیا ہمارے اہم ترین دماغ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کیوں اعلیٰ تعلیم یافتہ، بہترین یونیورسٹیز کے ڈاکٹرزانجینئرز اور سائنسدان داعش جیسی تحریکوں کا سرگرم حصہ بنتے جا رہے ہیں؟۔
یقیناً یہ ہماری حکومتوں کی ماضی کی کوہتائیوں اور غلط فیصلوں کا ثمر ہے کہ دنیا بھر میں ہمارا ایک ” دہشت گرد” قوم اور اسلام کا ” جارحیت کے مذہب” کا امیج بنتا جا رہا ہے، اور اس کی بیخ کنی کے لیئے اسلامی فوج کے اتحاد کی نہیںتدبیر کی ضرورت ہے، آپ جب تک ایک فصل کاٹیں گے دوسرے “پود” اس سے زیادہ خونخوار حالت میں تیار ہو چکی ہوگی ۔ آج 2017 میں عالمی یوم انسدادِ دہشت گردی مناتے وقت ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہماری مستقبلکی منصوبہ بندیاں اور تیاریاں اس انسداد میں کتنی معاون ثابت ہوں گی، یا پھر ہم اپنے ساتھ آنی والی نسل کو بھی ہولناک جنگ اور تباہی و بربادی کے اندھے کنویں میں جھونکنے چلے ہیں؟۔