پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے مسائل جہاں پاکستان کی ترقی کی شرح کی باگیں کھینچے رکھتے ہیں اور سست روی کا شکار معیشت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ تو دوسری طرف ہم اپنی معاشرتی اقدار سے منہ چراتے ہوئے دوسروں کی ثقافتوں کا لبادہ اوڑھتے چلے جا رہے ہیں یا پھر مسلط کرتے جا رہے ہیں (کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا)۔ پاکستان سے متعلق سمع خراشی کرتی کسی خوش آئند بات پر بھی کان دھرنے کو دل نہیں چاہتا کیوںکہ یقین اس بات پر ہوتا ہے کہ اس بات کا اچھا تاثر دیرپا قائم نہیں رہے گا، جس کی بنیادی وجہ ہم پاکستانیوں کی مصائب و مشکل ذدہ ذہن میں رچی بسی منفی سوچیں ہیں۔
ہم گردن تک کرپشن اور بدعنوانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس دلدل سے نا تو ہم خود نکلنے کو تیار ہے اور نا ہی کوئی ہمیں اس دلدل سے نکالنے کے لئے تیار نظر آتا ہے اور اگر کوئی آبھی جاتا ہے تو ہماری بے اعتمادی اسے اس کے نظریات بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ دراصل عوام کے مسائل حل کرنے والے جب خود ہی عوام کو مسائل کی جانب دھکیلنے لگیں تو پھر عوام کس سے جائے پناہ مانگے اور کہاں ایسی جگہ ڈھونڈھے۔
جب مسیحائی بانٹنے والے خود موت بانٹنے لگ جائیں، جب پیاس بجھانے والے پیاس بانٹنے لگ جائیں تو عوام کہاں جائیں۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ہر وہ فرد پاک صاف ہے یا کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث نہیں ہے جسے ابھی تک یہ سب کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ یہاں سب کے سب تسلیاں دیتے ہیں اور ہر طرف سے صرف کرپشن کرپشن کی صدائیں گونجتی رہتی ہیں تو دوسری طرف یہ کرپشن یہ بد عنوانی اس وقت بھرپور طریقے سے جلوہ گر ہوتی ہے جب آپ کا کوئی کام کسی سرکاری یا نیم سرکاری محکمے میں پڑ جائے۔
پاکستان کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں جس نے کرپشن نہیں کی وہ تو رو ہی رہا ہے جبکہ وہ بھی مطمعن نظر نہیں آتا جو خود بھی کرپشن ذدہ ہے۔آپ کسی بھی فرد کے سامنے کھڑے ہوں آپ کو لگے گا کہ یہ آپ سے کچھ نا کچھ مانگنے والا ہے چاہے آپ کہیں سودا سلف لینے بازار گئے ہوں اورموٹر سائیکل کھڑی کرنے کے لئے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں تو کوئی آپ کے لئے دوسری موٹر سائیکلوں کے درمیان آپکی موٹر سائیکل کی جگہ بناتا دیکھائی دیتا ہے اور آپ کو سمجھ آجاتی ہے کہ واپسی پر کچھ نا کچھ آپ کو اس شریف آدمی کو دینا پڑے گا۔
ہمیں کرپشن اور بدعنوانی کا علم اس لیے بھی نہیں ہو پارہا کیونکہ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارا کسی بھی نوعیت کا کام ہو مگر ہو جلدی جائے اس جلدی نے جس کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں ہے سارا کام خراب کر رکھا ہے اس جلدی کی وجہ سے ہم سب سامنے کھڑے چوکیدار کو کچھ بھی دینے سے گریز نہیں کرتے، یا کسی بھی ایسی جگہ جہاں آپ کو لائن میں کھڑا ہونا ہو آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ’میرا کام‘ پہلے ہوجائے۔
ایک سوال جو ہمیں اپنے آپ سے ہوگا کہ کیا واقعی ہم کرپشن یا بدعنوانی کو اپنے معاشرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اور اگر اس کا جواب ہاں میں آجاتا ہے تو پھر جان لیجئے کہ آپ کو بالکل اسی طرح جیسے تبلیغ کرنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ پہلے اپنے آپ اور اپنے گھر سے تبلیغ شروع کرو اور سب سے پہلے اپنے آپ میں تبدیلی لاؤ اپنی عملی زندگی میں تبدیلی لاؤ۔ اپنے گھر میں ہونے والی کسی بھی نوعیت کی بدعنوانی کو واضح کر کے ختم کرنا ہوگا، پھر اپنی گلی محلے میں جو چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں وہاں سے اس بدعنوانی کو ختم کرنا ہوگا ان سب لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا ، رکشے والے، بس والے‘ وین والے اور فیول پمپس والے سب چھوٹے چھوٹے لوگ اگر اس کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک ہوجائیں تو کوئی مائی کا لال ہمیں کمزور نہیں کر سکتا ہمیں ڈرا دھمکا نہیں سکتا ہمارا یہ پولیس کا ادارہ صرف اسی لئے بد عنوانی کرتا ہے کیوںکہ ان لوگوں کو بہت اچھی طرح سے علم ہے کہ ہم سب ہی کہیں نا کہیں پھنستے ہیں اور کرپشن زدہ ہیں اور اس پھنسنے والی بات کا تو ہر کوئی فائدہ اٹھاتا ہے۔ روزگار سے برکت کے خاتمے کا رونا تو سب ہی روتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس خیربرکت والی عملی زندگی کی جانب کسی کا دھیان نہیں جاتا۔
کرپشن کسی سیاسی داؤ پیچ سے ختم نہیں ہوسکتی اسے اپنے اندر سے اپنے کردار سے ختم کرنا ہوگا پھر کہیں جاکہ کوئی سچا سیاست دان جو اپنے آپ کو ہماری طرح لائن میں لگ کر اپنے کام کرانے کا مزاج رکھتا ہو وہ ہمارا صحیح معنوں میں رہنما بننے کا اہل ٹہرے گا۔ پاکستان کا نام کرپشن کا ماتم کرنے اونچا نہیں ہوگا بلکہ کرپشن کو اپنے اندر سے ختم کرنے سے روشن ہوگا اور یہ کام ہم سب فردِ واحد کی حیثیت میں کریں گے تو ہوگا۔