The news is by your side.

فتحِ مکہ اور امتِ مسلمہ

مستند تاریخی کتب کے مطابق دس رمضان آٹھ ہجری کو حضور ِ اکرم ﷺ نے صحابۂ کرام کو مکمل رازداری کے ساتھ مکہ کی جانب عازمِ سفر ہونے اور فوج کو تیار کرنے کا حکم دیا تو آپ ﷺ کےقریبی ساتھیوں سمیت ہر کوئی اس اچانک روانگی پر انگشت ِ بدنداں تھا ، اگرچہ ’خیبر‘ اور ’وادیِ القریٰ‘ کی فتح کے بعد مسلمانوں کی برتری کے واضح آثار نظر آنے لگے تھے ۔  پھر بھی وہ ہر گز اس پوزیشن میں نہ تھے کہ یکدم مکہ پر چڑھائی کر سکیں ، مگر حضور اکرمﷺ کو بذریعۂ وحی اطمینان دلایا جا چکا تھا ۔

“جب اللہ پاک کی مدد اور فتح آپہنچے اور وہ آثار جواس پر کھلنے والے ہیں کہ آپﷺ لوگوں کو جوق در جوق اللہ پاک کے دین میں داخل ہوتا دیکھ لیں تو اپنے رب کی تسبیح اور استغفار کریں۔”

( سورۃ النصر)

آپﷺ دس ہزار کی فوج کے ساتھ مکہ کی طرف اس احتیاط سے روانہ ہوئے کہ دشمنوں کو بالکل بھی خبر نہیں ہو پائی اور سولہ رمضان المبارک کو یہ مٹھی بھر جانباز اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے کہ ایک تیر چلانے کی بھی نوبت نہ آئی اور مکہ کے رئیس ’’ابو سفیان‘‘ نے بغیر کسی مزاحمت کے اسلامی لشکر کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے خود کو ان کے سپرد کر دیا ۔جبکہ دیگر سر کردہ قبائلی لیڈر پہلے ہی دل سے اسلام کی فوقیت کو تسلیم کر چکے تھے مگر قریش کے مظالم علی الاعلان قبول ِ اسلام کی راہ میں حائل تھے۔

اس عظیم ترین اور تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد فتح کا اگر آج کے حالاتِ حاضرہ ، خصوصاََعالمِ اسلام اور عرب دنیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے موازنہ کیا جائے تو یہ بالکل چودہ سو سال پہلے کےوحشی عرب قبائل والی سچویشن ہے جب تمام جنگجو قبائل لڑنے مرنے پر تلے بیٹھے ہوتے تھے اور طویل جنگوں کے باعث عرب معاشرہ بہت تیزی سے زوال پزیر تھا ۔آج بھی مختلف اسلامی ممالک ایک دوسرے کے خلاف کچھ اسی طرح محاذ کھولے ہوئے ہیں ۔

کہیں نیوکلیئر اور جدید جنگی آلات کی خریداری کے سودے ہو رہے ہیں تو کہیں بڑی عالمی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کر کے دشمن کو باور کرایا جا رہا ہے کہ طاقت میں ہمارا پلڑہ بھاری ہے۔ یقینا ََ ہر گروہ، قبیلہ ، قوم یا ملک اپنے دفاع کا پورا حق رکھتا ہے مگر قابل ِ غور بات یہ ہے کہ فی الوقت مسلمان ہی مسلمان کے خلاف صف آراء ہو رہے ہیں اور اسلام دشمن قوتیں ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ہلا کر پتلی تماشہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اگر ’خادمِ حرمین شریفین‘  یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ سے تعلقات بڑھا کر ، اور قطر، ایران یا دیگر اسلامی ممالک سے قطع تعلق کر کے وہ اپنے اقتدار کو دوام بخش رہے ہیں تو وہ یقینا َََ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں ، کیونکہ سانپ بہر حال سانپ ہوتا ہے ، آپ اسے آستین میں پالیں یا نرم گرم بستر پر، اس کی فطرت ڈسنا ہے۔

اے لوگو! اللہ تعالی ٰ نے جس دن یہ زمین اور آسمان تشکیل دیئے اس دن اس مکے کو حرمت کی جگہ قرار دیا ، مجھ سے پہلے بھی کسی کے لیے مکہ حلال نہیں ہوا اور نہ ہی میرے بعد ہوگا ۔( خطبۂ رسولِ پاک ﷺ )۔

مندرجہ بالا خطبے کی روشنی میں پہلا سوال یہ ذہن میں ابھرتا ہے کہ صدیوں سے حجاز ِ مقدس پر حکمران عربوں کے لیے اسلامی اقدار اور اس کی وحدانیت سے زیادہ اہم ذاتی اقتدار کب سے اور کیونکر ٹھہرا ؟ہر ذی شعور آگاہ ہے کہ امت ِ مسلمہ کی موجودہ شیراز ہ بندی میں بنیادی کردار آپس کے اختلافات اور فرقہ پرستی نے ادا کیا ہے، تو لازمی وقت کی ضرورت تھی کہ ان اختلافات کا قلع قمع کر کے اتفاق و یگانگت کا پرچار کیا جاتا ، اس کے بجائے انہیں اس طرح ہوا دی جاتی رہی ہے کہ آج امت ِ مسلمہ کئی گروہوں میں بٹی ہوئی ہے جو ایک دوسرے کے لیے کافر اور زندیق ہیں ۔ لا محالہ عالم ِ اسلام کے اس انتشار کی گہری دھند میں اسلام کی اصل شناخت کہیں گم ہوتی جارہی ہے اور محبتوں کا پرچار کرکے دلوں کے فرق کو مٹا کر عالمگیر امن کا دائی دنیا کا سب سے بڑا مذہب ’انتہا پسندی‘ کا نشان بن کر رہ گیا ہے

مگر ہمارے حکمرانوں کے لیے اب بھی سب سے اہم عالمی طاقتوں کی خوشنودی ہے ،  حالانکہ اللہ تعالی ٰ نےعربوں کو ایک ایسی سرزمین کا اقتدار بخشا جس کی حفاظت کی ذمہ داری اس نے خود لی ، مگر آج ان کا ایمان اتنا ڈانوا ڈول ہے کہ خدا پر توکل کے بجائے وہ ’ڈونلڈ ٹرمپ‘کی مدد پر بھروسہ کرنے لگے ہیں ۔ کیا وہ بھول گئے ہیں کہ جس عظیم ہستی کہ وہ امتی ہیں اللہ پاک نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر ،’فاتح و نصیر‘  کا تاج کس طرح اس کے سر پر رکھا تھا؟؟؟  کیا وہ یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں کہ عرب سے اٹھ کر جس گھٹا نے دنیا کے کونے کونے کو سیراب کیا تھا ،   اس کی شان یہ تھی کہ برس ہا برس تک بھوک، قید و بند، معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ ، جسمانی اور روحانی اذیتیں دینے والے اس کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑے اپنی تقدیر کے فیصلے کے منتظر تھے اور اس عظیم سپہ سالارِ اسلام ، عجز و انکساری کے پیکر نے جھکی نظر کے ساتھ ’عام معافی ‘  کا اعلان کیا تھا ۔

آج جب مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر مغلظات سے نوازتے ہیں،   تو کافر اور میں مسلمان کےنعرے سر ِ عام لگتے ہیں ،  یا توہین کے نام پر بے گناہ لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل کر مار دیا جاتا ہے تو کہیں سے کوئی صدا ئے احتجاج بلند نہیں ہوتی کہ جس   کے   محافظ تم بنے بیٹھے ہو ، وہ تو سر ِ راہ لہولہان کردینے والوں کو بھی خوش دلی سے معاف کرکے فیصلہ ان پر چھوڑ دیتا تھا کہ’’ جس کا دل گواہی دیتا ہے اس کے لئے اسلام کے دروازے کھلے ہیں اور جو مہلت کے طلب گار ہیں ان پر کوئی زبردستی نہیں ،  وہ آزاد ہیں ‘‘۔

بے شک فتحِ مکہ حضور پاک ﷺ کی اعلی ٰ حکمت ِ عملی، معاملہ فہمی اور حالات کو اپنی موافقیت میں تبدیل کرنے کی عمدہ صلاحیتوں کا مظہر تھی ، جس سے بغیر کسی خون خرابے کے عرب کے وہ تمام قبائل ایک لڑی میں پروئے گئے جو کچھ عرصے پہلے تھے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔

مگر کیا آج عالم ِ اسلام کے سرکردہ حکمران اِن اعلی ٰترین صلاحیتوں کے نصف تو کیا دسویں ، پانچویں کے بھی حامل ہیں ؟ کیاا نہوں نے مستقبل کی جنگی منصوبہ بندیوں میں اس حکمت و مصلحت کو رائی برابر بھی جگہ دی ہے ،جس کے بل بوتے پر نبی آخر الزماں ﷺ نے مکہ فتح کیا تھا ؟؟ کیا ہم واقعی دنیا سے سب سے بڑے مذہب کے جانثار ہیں یا پھر ہمارے لیے ذاتی اقتدار کا دوام ، مفادات اور عیش و آسائش ہی منتہائے نظر ہیں ؟؟

یقینا ََ ہم اسلام کے اصل راستوں سے ہٹ کر غفلت، جہالت اور گمراہی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں ۔ ہماری نمازیں بے اثر ، روزے بے روح اور عبادات محض دکھاوا تو تھیں ہی ، ہمارے عمل سے اخلاقیات کا وہ اعلی ٰ معیار بھی عنقہ ہوتا جارہا ہے جو نبی پاک ﷺ کا حسن ِ عمل اور صحابۂ کرام  کا شیوۂ اولین تھا ، کہ جس کےبل بوتے پر مٹھی بھر افراد نے تاریخ کا دھارہ  تبدیل کر دینے والی انوکھی جنگ جیت کر’’فاتح ِمکہ ‘‘  کا لقب پایا تھا ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں