The news is by your side.

مصنوعی ذہانت کس طرح ہمیں اپنا اسیر بنارہی ہے

ہمارے ذہن میں دن رات لا تعداد خیالات آتے رہتے ہیں ،  ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کتنے خیالات جو آج ہمیں بے سروپا یا دیوانے کی بڑ معلوم ہوتے ہیں آنے والے دنوں میں ہم انھیں حقیقت کے روپ میں ڈھلتا دیکھ سکیں گے۔ اسی لیے آئن سٹائن نے کہا تھا ۔ ’’اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول معلوم نہ ہو تو اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ‘‘۔

آج ہم جس دور میں جی رہیں ہیں وہ بلاشبہ ٹیکنالوجی کے عروج کا دور ہے ، آرٹی فیشل انٹیلی جینس اور نا نو ٹیکنالوجی نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں کر دیا ہے۔ نصف یا ایک صدی پہلے تک جو سائنس فکشن کے تصورات تھے وہ آج سائنسی حقیقت بنےہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور جو آج ہمیں نا ممکن دکھائی دیتے ہیں ، بعید نہیں کے اگلے چند برس میں وہ ’’کرشماتی سائنس‘‘  کا حصہ بن چکے ہوں ۔ یہ انسان کا ناممکنات پر غور و فکر ہی ہے جس نے اس پر کلی طور پر ناقابل ِ توقع اور گہرے سا ئنسی میدان کے دروازے وا کیے ہیں ۔

مصنوعی ذہانت یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس 1960 کے عشرے سے سائنس دانوں کا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے ، تحقیق و جستجو کے جتنے در اے آئی نے انسان پر کھولے ہیں وہ اس سے پہلے کسی اور سائنس کے حصے میں نہیں آسکے، جیسے کے نام ہی سے ظاہر ہےیہ مصنوعی طریقے سے انسان کی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور مشین سے دماغ کی طرح کام لینے کی ایک کاوش ہےجس کا تمام تر انحصار دماغ کی میکینزم کو سمجھنے پر ہے۔ اور انسانی دماغ اللہ تعالی ٰ کی وہ تخلیق ہے جس پر اس نے قرآن پاک میں خود بھی فخر کیا ہے، سو یہ کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ ہم اس میکینزم یا طریقۂ کار کو مکمل طور پر سمجھ سکیں جس پر دماغ کام کرتا ہے ۔ مگر برس ہا برس کی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے بہت سے عقدے وا کیئے ہیں ۔ ایک عام اندازے کے مطابق دماغی خلیات کو کام کرنے کے لیے اتنی مقدار میں انرجی درکار ہوتی ہے جس میں ایک ایئر بس امریکہ سے لندن تک با آسانی سفر کر سکتا ہے۔ انسانی جسم کی فنکشنل میکینزم کے مطا بق د ماغ کو اپنے افعال سر انجام دینے کے لیے توانائی یا با الفاظ ِ دیگر’’رزق‘‘ دل فراہم کرتا ہے۔ جسم کے حسی اعضاء جیسے ناک، کان ، آنکھوں سے خام مواد سگنلز کی صورت میں دماغ تک بھیجا جاتا ہے ، دماغی خلیات جنھیں’’نیوران‘‘ کہا جاتا ہے اس موادکو پراسس کرتے ہوئے اس پیغام کو دی کوڈ کر تے ہیں ۔اس سلسلے میں برسوں سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ مشین یعنی کمپیوٹر انسانی دماغ کو کلی یا جزوی طور ہر پڑھنے کے قابل ہو جائے اور 1995 سے’’ہیومنائڈ روبوٹس ‘‘ یعنی انسانوں کی طرح سوچنے ،سمجھنے اور جذبات رکھنے والے روبوٹ پر کام جاری ہے اور سائنس دانوں کو کسی حد تک کامیاب بھی ملی ہے ۔

چند برس قبل ایک ایسی سیلیکون چپ بنائی گئی تھی جو بارہ نیوران کی میموری ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی یا بارہ دماغی خلیات سے رابطہ کرسکتی تھی ،مگر دماغ ایک پیچیدہ ترین عضو ہے ، چھینک مارنے سے لیکر فالج ، ایڈکشن (نشہ) اور کئی مہلک ترین امراض کے تانے بانے اسی سے جاکر ملتے ہیں سو بارہ نیوران کی چپ بلاشبہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی ایک سعیِ لا حاصل کے مصداق تھی ۔ اس سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے اور پاکستان کے لیے یہ یقینا ََ باعث فخر ہے کہ انسانی دماغ کو ایک سیلیکون چپ پر گرو کرنے کا یہ کارہائے نمایاں ایک پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر نوید اے سید نے سر نجام دیا ہے ، جو نیشنلیونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے فارغ التحصیل ہیں اور فی الوقت کینیڈا میں کیلگری یونیورسٹی کے برین انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں ۔ ڈاکٹر نوید نے اپنی ٹیم کے ساتھ جو ’’بایونک چپ ‘‘ تیار کی ہے وہ ہزار کے قریب نیورانز یا برین سیلز کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔


پاکستانی سائنسداں کا دنیا بدلنے والا کارنامہ


چونکہ انسانی دماغ الیکٹریکل سگنلز کے ذریعے کام کرتا ہے اور یہ سگنلز اس قدر طاقت ور ہیں کہ ا ن سے پچیس وولٹ کے کئی بلب روشن کیئے جاسکتے ہیں ، لیکن جب یہ الیکٹریکل سگنلز یا نیوران کا تسلسل گوشت یا جسم کے پٹھوں ( مسلز ) تک منتقل ہوتاہےتو یہ الیکٹریکل سے کیمیکل سگنلز میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ اب تک ایسی کوئی چپ دریافت نہیں ہوئی جو دماغی خلیات سے مکمل طور پر رابطہ کرتے ہوئے باتیں کر سکے یا ان کی ترتیب کو سمجھ سکے۔ تاہم  ڈاکٹر نوید کی تیار کردہ ہ ہزار نیو ران والی چپ کسی حد تک اس صلاحیت کی حامل ہے جس میں متعدد ٹرازسٹرز اور کیپی سیٹرز سیریز میں لگائے گئے ہیں ، کیپی سیٹر خلیات میں تحریک پیدا کرتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں سو یہ تحریک آگے بڑھتی جاتی ہے اور خلیات کے نیچے لگےٹرازسٹرز سگنلز کو وصول کرتے ہوئے چپ تک بھیجتے ہیں جہاں وہ میموری کی صورت میں جمع ہوکر ایک دائروی لوپ مکمل کرتے ہیں ۔

یعنی بایونک چپ وہ الیکٹریکل آلہ ہے جس پر’’گرو‘‘ کیے گئے نیورانز دماغی خلیات سے باتیں یا خلیات اس الیکٹرانک ڈیوائس سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ اب بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بیدار ہوگا کہ کیا اس چپ سے انسانی افعال کو مکمل طور پرکنٹرول کرنا ممکن ہوگا ؟ تو ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ محبت ، نفرت ، عداوت یا دشمنی و بے رخی جیسے احساسات و جذبات کس طرح دماغ میں بیدار ہوتے ہیں اور پھر ان کی ٹرانسمیشن میکینزم کیونکر بنتی ہے یہ عقدہ اب تک انسان حل نہیں کر پایا سو انکو کنٹرول کرنا ابھی اس کے بس کی بات نہیں ۔البتہ اس چپ کے ذریعے نفسیاتی عوارض ، نشہ کی لعنت اور کئی دماغی امراض کا علاج ممکن ہے ۔ اس بایونک چپ کو دماغ میں ’’ہپو کیمپس‘‘کے قریب لگایا جائیگا جہاں میموریز جمع ہوتی رہتی ہیں ، اس کی فنکشنل مکینزم میں ہر فعل کا اپنا متعلقہ کوڈ ہوگا ، جس کو ڈائل کرنے کی صورت میں چپ سگنل پاس کرے گی ورنہ بلاک کردے گی ۔

کسی بھی بیماری کا علاج دریافت کرتے ہوئے محققین کی توجہ کا مرکز وہ جگہ یا مقام ہوتا ہے جہاں سے خرابی یا بگاڑ کا آغاز ہوا ، چونکہ پارکنسن یا ریشہ کی بیماری کا سبب بھی چند اعصابی پیچیدگیاں ہیں اس لیئے ڈاکٹر نوید کی بنائی گئی چپ سے یہ باآسانی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون سے خلیات فعال نہیں رہے جو مرض کا سبب بنے اور پھر اس کے متعلقہ کوڈ کے ذریعے ان خلیات کو از سر ِ نو ایکٹو ( فعال ) کیا جاسکتا ہے ۔اس کا ایک اور فائدہ خلیات میں بڑ ھوتری کے عمل کی رفتار تیز کر کے مہینوں میں بھرنے والے زخموں کو اب دنوں میں ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور گزشتہ ماہ ہی ایک ایسی ’’ مصنوعی جھلی‘‘  ایجاد کی گئی ہے جس سے زخموں کا بھرنا اب گھنٹوں کا کام ہے ۔

مجموعی طور پردیکھا جائے تو ڈاکٹر نوید کی تیارکردہ یہ چپ نا صرف بایو میڈیکل انجینئرنگ کے لیے ایک سنگ ِ میل ہے بلکہ انسانی زندگی پر اس کے دور رس اثرات کے بارے میں اندازہ لگانا تاحال مشکل ہے ۔ اگرچہ ’گوگل ایکس لیب‘اور ’مارکزوکر برگ ‘ کی ٹیمیں کافی عرصے سے ایک مصنوعی دماغ بنانے کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں یعنی ایک ایسی مشین جو مکمل طور پر دماغ کی طرح سوچنے، سمجھنے اور احساسات و جذبات کی حامل ہو مگر ابھی تک اس سلسلے میں پیش رفت کافی سست ہے۔

جس کی ایک وجہ سائنس دانوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے اس پر کی جانے والی شدید تنقید بھی ہے ۔بایونک چپ ہو، مصنوعی دماغ یا “ام مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی ” یہ تمام پراجیکٹس سپر انٹیلیجنس کا حصہ ہیں مگر اس حقیقت سے سب ہی آگاہ ہیں کہ حد سے بڑھی ہوئی کوئی بھی چیز چاہے وہ ذہانت ہی کیوں نہ ہو نقصان دہ ہوتی ہے۔ ہماری زندگیوں میں بڑھتا ہوا مصنوعی ذہانت کا عمل دخل پہلے ہی انسان کی اہمیت کو گھٹا کر روبوٹ اور مشین کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے اور معاشرتی زندگی کے صدیوں پرانے تانے بانے ٹوٹ کر بکھرنے کے در پر ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی بایو میڈیکل انجینئرنگ میں ترقی یا  ’ہیومنائڈ‘ ایجادات براہ ِ راست اللہ تعالی کی تخلیق کو چیلنج کر رہی ہیں ۔ اگرچہ ڈاکٹر نوید کی تیار کردہ بایونک چپ اب تک طنز و تنقید کی بوچھاڑ سے محفوظ رہی ہے کیونکہ انکا مقصد اپنی ایجاد کو انسانیت کی فلاح کے لیئے استعمال کرنا ہے مگر یہ کب یہ غلط ہاتھوں میں جاکر شیطانی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے استعمال ہونے لگے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ ہر مؤجد کے لیئے سب سے بڑا امتحان اپنی ایجاد کو منفی اور تباہ کن استعمال سے بچانا ہوتا ہے اور ڈاکٹر نوید اب تک اس چیلنج سے احسن طریقے سے نبردآزما ہوتے رہے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں