The news is by your side.

رسم و رواج میں جکڑے مسلمان

اللہ رب العزت نے جب سے انسان کو بارامانت دےکراس زمین پر نازل کیا ہےتب سے خوشی اور غمی بھی اس کامقدر بن کر شریک حیات رہی ہے۔ایک معینہ مدت  تک  انسان کو اس مٹی میں رہنا ہے،طرح طرح کے تقا ضو ں سے زندگی کارشتہ جڑاہےحالات میں تغیرکے باعث رہن سہن میں بھی تبدیلی فطرت کا حصہ ہےتو اس ضرورت کو پورا کرنےکےلیےنصاب زندگی بصورت شریعت عالم انسانیت کے لیےحقیقی معبود کی طرف سے عظیم احسان ہےتاکہ انسان اپنی مستعارحیات کے ہمہ تقاضوں کو بھی پوراکرے اوراس کاہر عمل اس بات کی بھی غمازی کرتاہوکہ اپنے رب کاپابند ہوناہی حقیقی آزادی ہے۔

ایک کامل دین کی پیروی کرنے والے مسلمان کا خود سا ختہ رسم و رواج کو تعلیمات دین پرفوقیت اس بات کی دلیل ہے کہ اسے نور اسلام سے کو ئی شناسائی نہیں۔

عبادت و ریاضت کی جگہ رسم ورواج کی طرف بڑھتاہوارجحان انتہائ حساس اور خطرناک حد تک پہنچ چکاہے۔اپنی رسومات میں اس قدر اہتمام کہ شب بھرجاگنامعمول کی بات ہے۔اب حالات کے دھارے اوراپنی سوچ کے زاویے تبدیل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔خوشی اور مسرت کے لمحات ہوں یاپھر مرگ وموت کی وجہ سے رنج وغم کا وقت ہو بہر صورت یہ اعتقادرکھنا ضروری ہے کہ زندگی یا مابعد زندگی کےتمام تر گوشوں کے لیے ہمارے دین میں کامل راہنمائی موجود ہےاور اس نعمت کےحصول پر صحابہ کرام نے حقائق آشکار ہونے کے باعث شکر کادامن نہ چھوڑا،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کبھی نماز کے بعد تو کبھی منبر رسول پریہ کلمات والہانہ انداز میں کہاکرتے کہ”حمدوشکراس ذات کاجس نے ابوہریرہ کو اسلام کی ہدایت دی،حمدوشکراس ہستی کاجس نےابوہریرہ کو قرآن کےعلم سے نوازا،حمدوشکراس کا جس نے ابوہریرہ پراحسان فرمایاکہ حضرت محمدﷺ کاامتی بنایا”۔

(حلیۃ الاولیا،ج 1۔ص 459)

یہی وجہ ہےکہ امام غزالی علیہ الرحمۃ نے فرمایاکہ رب تعالٰی کو محبوب ترین اور شکرادا کرنے کے لیےزیادہ موزوں یہ کلام ہے۔

(الحمدللہ الذی من علیناوھدانا الی دین الاسلام)

تمام تعریفیں خاص ہیں اس ذات کے لیے جس نے ہم پر احسان کیااورہمیں ہدایت دی دین اسلام کی

(منہاج العابدین،ص 210)

بحیثیت مسلمان ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہماراایک دائرہ ہے اورہمارے لیے حقیقی مالک کی طرف سے حدود مقررہیں جن کی پاسداری ہی بندگی کاتقاضا ہے۔بات بات پہ یہ کہنا جب سے ہم نے آنکھ کھولی ہے تو ایسا ہی ہوتاہوادیکھ رہے ہیں اور ہمارے بڑوں نے بھی ایسا کیا۔یہ طرز اختیار کرناکم از کم اس آدمی کو زیب نہیں دیتاجس نے کلمہ پڑھ کر ہمیشہ کے لیے اللہ تعالٰی اوراس کے رسول کی پیروی کادم بھراہو،جب ہماراایمان ہے کہ ہمارادین جامع اورآخری دین ہے تو پھرکہاں کی یہ انصاف پسندی ہے کہ اپنی تقریبات و رسمی امور میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کو پش پشت ڈال کررواج کو ترجیح دی جائے۔

راقم کی ناقص رائے یہی ہے کہ سب سے زیادہ جس چیز نے اثرڈالاہے وہ ہے ہندو مسلم کا آپس میں سالہا سال تک میل ملاپ اورایک دوسرے کی راہ و رسم میں شریک ہونا،ساتھ ساتھ شعورکا نہ ہونااوردین سے دوری بھی ہے۔

ہمیں تسلیم کرناہوگا کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہمارے آباواجداد کاکھلم کھلا اختلاط اورپھردینی حوالے سے ناواقفیت ہی آنے والی نسلوں میں خاص طور پرشادی بیاہ اورموت کے بعد والے امور میں بہت سے خلاف شرع رسموں کو پختہ کر گئی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم سے فرمایاکہ بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟تو ان کا جواب یہ آیا کہ “ہم نے اپنے بڑوں کوایسا کرتے ہوئے دیکھاہے۔۔۔۔”

معلوم ہواکہ یہ سوچ یکسر غیراسلامی ہےاوریادرہے کہ اسلامی تعلیمات محدود نہیں کہ خوشی و غمی کے مواقع گزارنے کی راہنمائی نہ ہوبلکہ آپ ﷺ کے حیات ِمبارکہ میں بھی حالات کے نشیب وفراز رہے۔

ضرورت اب اس امر کی ہے کہ کو ئی بھی عمل کرنے سے پہلے ہمیں بھرپورانداز واقفیت رکھنی چاہیے کہ حضورﷺکااسوہ مبارکہ کیا تھااورہمارے لیے کیاارشادات ہیں۔آئیے عہد کریں کہ اپنے معمولات میں تعلیمات اسلام کو اولین حیثیت دیں گےاوررسومات کوقرآن و سنت کے مطابق ڈھال کربارگاہ الہی میں سرخرو ہوں گے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں