The news is by your side.

وہ روٹی چرا کر چور ہوگیا

مملکتِ  خداد پاکستان میں قانون کی پکڑ موٹر سائیکل سوار سے شروع ہوکر گدھا گاڑی چلانے والے پر مکمل ہوجاتی ہے۔ کراچی شہر میں کسی بھی نوعیت کا کوئی مسئلہ درپیش ہو سب سے پہلے عوامی سواری یعنی موٹر سائیکل والوں کی شامت آجاتی ہے۔ اس شامت کو بر لانے میں پولیس کی وردی میں ملبوس( چاہے وہ سفید وردی ہویا پھر کالی) کبھی کونے کھانچوں میں چھپ کر کھڑے ہوجاتے ہیں یا پھر بیچ سڑک میں ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یوں تو موٹرسائیکل چلانے والوں کی بھی دوبہت ہی بڑی کوتاہیاں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ بغیر لائسنس کے سوار ہوجاتے ہیں اور دوسری یہ کے ہیلمٹ لگانا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ تیز رفتار والی لائن میں موٹرسائیکل لے کر گھس جاتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ بہت معذرت کے ساتھ میں نے مضمون موٹر سائیکل چلانے والے حضرات (اب تو خواتین بھی لکھ سکتے ہیں) کی اصلاح کے لیے نہیں لکھ رہا بلکہ اپنے قانون کی پہنچ پر کچھ قلم درازی کرنے لگا ہوں۔

مضمون کا عنوان اتنا عام فہم ہے کہ کسی کو سمجھنے میں قطعی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے کیونکہ سماجی میڈیا پر اس مضمون پر بہت ساری تصاویر گاہے بگاہے شائع ہوتی رہتی ہیں گزشتہ روز ہماری نظر سے بھی ایک ایسی ہی تصویر گزری جو یہ سوال کرتی محسوس ہوئی کہ کیا واقعی ہمارے ملک میں جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں ایک روٹی کی چوری کی ایسی ایسی سزائیں دی جاتی ہیں کہ چور قانون کے ہاتھوں پہنچتے پہنچتے بھوکے پیٹ ہی اپنے خالق حقیقی سے ملتا ہے اور کہیں قانون کے رکھوالوں کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اگلے پچھلے سارے چوری کے کیس ایک روٹی کی چوری کرنے والے کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ یوں تو اب کراچی شہر میں اللہ کے بندے لوگوں کو جگہ جگہ کھانا کھلانے کا بندوبست کر کے بیٹھے ہیں اور تو اور اگر کسی فرد سے بھی کوئی روٹی کا تقاضا کرتا ہے تو وہ اسے روٹی دلا ہی دیتا ہے ، آخر پھر یہ چوری کیوں؟؟؟۔

دراصل یہ چوری معاشرے میں قانون کے عدم توازن کی عکاسی کرتی ہے ۔عارف شفیق صاحب کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو کہ بہت مشہور بھی ہے

غریبِ شہر تو فاقہ سے مرگیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی

ہم ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے عسکری طور پر کیا کچھ نہیں کر رہے ،  ہماری پوری کی پوری عسکری قیادت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہر وقت اقدامات کرتے رہتے ہیں،  ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ‘ ہمارے خفیہ سروسز کے ادارے ‘ دن رات اس مہم میں سرکرداں ہیں کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑے جائیں بلکہ ملک کو آخری دہشت گردسے بھی پاک کروا دیا جائے۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہوپارہا یہ ایک ایسا زخم بنتا جا رہا ہے جوکہیں سے صحیح ہوتا ہے تو کہیں  اورسے ابھر آتا ہے جیسے کینسر کی شکل اختیار کر رہا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ میانہ روی اختیار کرواور یہ ہم سب بچپن سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں اور اب اپنی اگلی نسلوں کو بھی گھروں میں بیٹھ کر یہی سمجھانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں مگر میانہ روی ہمارے کسی بھی عمل سے عیاں نہیں ہوتی یا اس کی جھلک تک نہیں دکھائی دیتی ۔

یہاں لوگ زکوۃ فطرہ تو کیا یتیم کا مال تک کھا جاتے ہیں۔ اور پکڑ اس بھوک کی ہوتی ہے جو ہوتی تو سب کی ایک جیسی ہے مگر کسی کو مرگ کی حد تک برداشت کرنی پڑتی ہے تو کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اب سوچ اور حالات بدلنے کا وقت آگیا ہے ‘ اب فیصلے کا وقت آگیا کہ کسی کو بھی  روٹی چوری کی ضرورت نہیں پڑے گی‘ اب کوئی غربت سے جان چھڑانے کے لیے خود کشی نہیں کرے گاا ور  اب قانون معاشرتی توازن کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتا نظر آئے گا۔

پانامہ کا فیصلہ آگیا ہے ‘ قانون نے اپنی حیثیت کا بتا دیا ہے کس کی جیت ہوئی اور کون ہارا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ فرق پڑتا ہے تو صرف اتنا کہ قانون کی بالادستی پہلی دفعہ اس ملک میں بغیر کسی ہنگامی حالات کے نظر آئی ہے۔ اللہ کرے یہ ملک اب قانون کی حکمرانی میں آگے بڑھے اور ہر وہ فرد جو کسی بھی قسم کے جرم کا ارتکاب کر چکا ہے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرے ۔ اب یقیناً کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔ عارف شفیق صاحب سے معذرت کے ساتھ کہ اب نا کوئی غریب فاقہ سے مرے گا اور نہ ہی  امیرِ شہر کو خود کشی کے لیے ہیرا میسر آئے گا۔ انشاء اللہ۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں