The news is by your side.

کیا جنگ اورغربت ہی پاک و ہند کا مقدر ہے؟

پاکستان اور بھارت کا قیام کوئی افسانہ نہیں بلکہ اس کے قیام میں لاکھوں لوگوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ تاج ِبرطانیہ کی تسلط سے آزادی کا مقصد یہ تھا کہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد فضاؤں میں سانس لیا جائے۔ آزاد سیاسی و سماجی فیصلے کریں اور اپنی نئی نسل کو ترقی راہوں پر گامزن کرسکیں کیونکہ ایک آقا اپنے غلام کو کبھی بھی اپنے سے بہتر نہیں دیکھ سکتا۔ بلا شک و شبہ پاک و ہند کے تحریک آزادی کے بانیان اس بات پر متفق تھے کہ تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کئے بغیر وہ اپنی خوابوں کو حقیقت میں نہیں بدل سکتے۔

برصغیر کی تاجِ برطانیہ سے آزادی کے بعد درحقیقت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں اپنے اپنے ملک کے شہریوں کو وہ مقام دلوائیں جس کا خواب بانیانِ تحریک آزادی نے دیکھا تھا۔ یقینا ان کا خواب مضبوط سیاسی، سماجی و معاشی نطام کا قیام تھا ۔ ان کے خواب میں یقینا اپنی نئی نسل کو بہترین تعلیم سے آراستہ کرنا اوروسائل کو صحیح انداز میں بروئے کار لا کر بھوک اور پیاس سے نجات دلاناتھا۔

مگر آج ستر سال بعد بھی دونوں ملکوں میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہ ہو سکی بلکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ دونوں ملکوں کے لوگ یہ بھول چکے ہیں کہ تحریکِ آزادی کے بنیادی مقاصد کیا تھے۔

مختلف بین الاقوامی اداروں کی جاری کردہ اعداد وہ شمار کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح58فیصد ہے، سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد2.5 کروڑکے
لگ بھگ ہے۔ جبکہ پاکستان میں غربت کی شرح 43 فیصد اور اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ مسائل یہاں ختم نہیں ہوتے بلکہ پینے کے لئے صاف پانی، غذائی قلت، آلودگی بڑھتی ہوئی آبادی، خواتین کے مسائل، صحت کے مسائل اور سینکڑوں دیگر مسائل ایسے ہیں جن میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جبکہ ہم اگر دونوں ملکوں کی حربی طاقت کا موازنا کریں تو دونوں ممالک اس دوڑ میں دنیا کے کے صفِ اول کے ممالک میں شامل ہیں۔

بھارت کا سالانہ فوجی بجٹ 55.7ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان نے سال2016 میں8.16 ارب ڈالر کی خطیر رقم مجموعی طور ڈیفنس پر خرچ کی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اگر ہم یورپی اقوام کی طرف نظر دوڑائیں تو ان ملکوں نے جنگ اور تنازعات کو پسِ پشت ڈال کر سیاسی، معاشی اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ اقوام طویل جنگ و جدل اورخونی تاریخوں سے گزر کر اس نتیجہ پرپہنچ گئے ہیں کہ جنگ اورجغرافیائی تنازعات ان کا مستقبل نہیں بدل سکتی۔ 1993 میں باقاعدہ طورپر یورپی یونین کا وجود عمل میں لایا گیا اوراس وقت 27 ممالک اس یونین کا حصہ ہیں۔ ان تمام ملکوں نے یہ طے کیا ہے کہ وہ اولین توجہ اپنی معاشی، تعلیمی اور سیاسی مقاصد پر مرکوز رکھیں گے۔

یہ 27 ممالک اپنے شہریوں کو ایک دوسرے میں ملک میں جانےکے آزاد ویزہ  پالیسی فراہم کرتے ہیں اور بعض ممالک یونیورسٹی تک تعلیم مفت فراہم کرتے ہیں۔ یہ  ممالک اپنے شہریوں کو بہترین صحت، تعلیم اور سفری سہولیات فراہم کرتے اور ماحولیاتی آلودگی جیسے دنیا کو درپیش بڑے چلینجزکا بھی سد باب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں مشرق وسطیٰ میں جاری بحران کے نتیجے میں بھی یورپ  کے کئی ممالک مشرقِ وسطیٰ سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کے لئے پسندیدہ ترین ملکوں میں شامل ہیں۔

جنوبی ایشیا میں بھی گو کہ سارک کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم یہ تنظیم اپنی مقاصد کے حصول میں تقریباًناکام نظر آتی ہے۔ اس علاقائی  تعاون تنظیم کے دو سب سے اہم رکن پاکستان اور بھارت کے مابین اختلافات کی وجہ سے یہ تنظیم جمود کا شکار ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر  اپنے  ملکوں میں غربت، تعلیم، اور صحت جیسے اہم مسائل پر توجہ دیں۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے کے بجائے مل کر اپنی مشترکہ مسائل کا حال تلاش کریں۔

دونوں ممالک آْپس میں چار سے زائد جنگیں لڑ چکے ہیں۔ مگر ان جنگوں کے نتیجے میں دونوں طرف غربت اور بھوک اور افلاس کے سوا کچھ نہیں ملا۔ میں بعض اوقات سوچتا ہوں کہ اگر صرف سیاچن جیسے دنیا کے سخت ترین محاذ سے دونوں ملک اپنی فوجوں کا انخلاء کریں اور اسے سیاحوں کے کھول دیں اور حاصل ہونے والی آمدنی کو دونوں ملکوں میں غربت کے خاتمے کے بروئے کار لایا جائے تو شاید دونوں ملکوں میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔

دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو یہ سوچنا ہوگا کیا ہم آزادی کے جملہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں یا پھر ستر سال ہم نے آپس کے
جھگڑوں میں گنوا دیئے ہیں۔

میں دونوں ملکوں کے باسیوں با لخصوص حکمرانوں سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آزادی کے ستر سال بعد کیا ہم یوم آزادی کے موقع پرحقیقی معنوں میں ان پرچموں کے سائے میں بیٹھنے کے قابل ہیں۔ دونوں ممالک آزادی کے مقاصد یعنی اپنے اسلاف کی خوابوں کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں۔

+ posts

محمد عرفان طالب علم ہیں اوران دنوں جرمنی میں مقیم ہیں‘ اس سے قبل پاکستان میں ایک متحرک سماجی کارکن اور صحافی کے طور پر کام کرتے رہے ہیں