یہ جنگِ عظیم دوئم کا زمانہ تھا، رتھ فاؤ نے مڑ کر بمباری سے تباہ شدہ اپنے گھر پر ایک الوداعی نظر ڈالی جس سے ان کی کئی کھٹی میٹھی یادیں وابستہ تھیں ۔ تیزی سے بہتے آنسوؤں کو ہاتھوں کی پشت سے پونچھتی ہوئی وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتی اپنے چاروںبہن بھائیوں اور والدین سے جا ملی۔ وہ جنگ کی بڑھتی ہوئی شدت کے باعث مشرقی جرمنی کو الوداع کہہ کر مغربی جرمنی کی جانب روانہ ہو رہے تھے۔ مگر رتھ فاؤ کے ڈگمگاتے قدم جیسے گواہ تھے کہ اسے اپنا آبائی گھر چھوڑنے کابہت قلق تھا۔
نرم دل اور حساس فطرت رتھ کی زندگی کی یہ پہلی ہجرت تھی، وہ نادان لڑکی بے خبر تھی کہ ابھی ان کے مقدر کی کئی اور ہجرتیں باقی ہیں ۔ اسے تو کسی اجنبی دیس جا کر وہاں درد سے بلکتے لاکھوں ، کروڑوں افراد کا مسیحا بننا تھا۔سنہ 1950 میں حالات بہتر ہونے کے بعد رتھ نے مغربی جرمنی میں اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرتے ہوئے ’مینز یونیورسٹی‘میں داخلہ لیا اور اپنے لیے میڈیسن کے پیشے کا انتخا ب کیا ۔ دوسروں کے دکھوں کو بانٹ کر ان کے لبوں پر میٹھی مسکان بکھیرنا ہمیشہ سے اس کا محبوب مشغلہ رہا تھا ۔ خدمت ِ خلق کا یہی جنون رتھ فاؤ کو میڈیسن سے کیتھولک چرچ لے کر گیا جہاں اس نے ’’ڈاٹرزآف دی ہارٹ آف میری‘‘ میں نن کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔
کچھ عرصے بعد انہیں دیگر سسٹرز کے ساتھ لیپروسی(جذام) کے مریضوں کی دیکھ بھال کی تربیت دے کر جنوبی انڈیا بھیجنے کے لیے منتخب کیا گیا ۔ کون جانتا تھا کہ یہ سفر رتھ کی زندگی میں ایک ایسا نیا موڑ لانے والا ہے جو اسے تاریخ میں امر کرنے کا سبب بن جائیگا۔اگرچہ خدمتِ خلق کے لیے وہ اپنی پوری زندگی وقف کر چکی تھی مگر کسی اجنبی سر زمین پر اس کے نصیب میں ایسی عزت اور اتنے اعلیٰ اعزازات منتظر ہیں یہ تو ان کے فہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔
جذام کے مریضوں کی مسیحا’ڈاکٹررتھ فاؤ‘ہم میں نہ رہیں*
دورانِ سفر ویزہ مسائل کے باعث رتھ فاؤ کو کچھ دن کراچی میں قیام کرنا پڑا ، انڈیا کے بارے میں وہ سفر سے پہلے کافی معلومات حاصل کرچکی تھیں مگر پاکستان ان کے لیے ایک نئی جگہ تھی۔ یہ اجنبیت محض چند روزہ ثابت ہوئی، میکلوڈ روڈ( آئی آئی چندریگر روڈ) کے عقب میں واقع کالونی میں قیام کے دوران کراچی کے باسیوں نے اپنی مہمان نوازی ، عمدہ رکھ رکھاؤ اور بے لوث محبت سے رتھ فاؤ کے دل میں کچھ یوں گھر کیا کہ وہ اپنے وطن لوٹ تو گئیں مگر جیسے اپنا دل اِسی اجنبی دیس بھول آئی ہو۔ کراچی میں چند روزہ قیام کے دوران وہ جذام کے مریضوں کی بستی بھی گئیں ، حساس و نرم دل رتھ فاؤ کے لیے یہ سب کچھ بہت تکلیف دہ تھا کہ کس طرح ان مریضوں کو اچھوت قرار دیکر معاشرتی اور سماجی زندگی سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کے سنگ دل والدین اپنے مریض بچوں کو رسیوں اور زنجیروں سے باندھ کر رکھتے تاکہ مرض کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس کھلی سفاکی اور سنگ دلی نے رتھ فاؤ کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیئے، اسے کبھی ان کی کوڑھ ذدہ جلد اور بہتی پیپ سے نا تو کراہیت محسوس ہوئی تھی نہ ہی گھن آئی تھی ،اور نا ہی کبھی جراثیم لگ جانے کا خوف ان کے دامن گیر ہوا تھا۔
ان کی شدید خواہش تھی کے جذام کے مریضوں کو بھی معاشرے میں وہی مقام حاصل ہو سکےجو دیگر امراض کا شکار افراد کودیا جاتا ہے،ان کے دکھ تکلیف میں ساتھ دیکر مشکل وقت کاٹنے میں ان کی مدد کی جائے۔یہی شدید خواہش اکتیس برس کی عمر میں رتھ فاؤ کو دوبارہ پاکستان لائی ۔ یہ 1960 کے اوائل کا زمانہ تھا ، مڈل کلاس اور نچلے طبقے میں تعلیم و شعور کی کمی کے باعث فرسودہ اور قدامت پسندانہ سوچ کا راج تھا ، ایسے حالات میں رتھ نے ان افراد کے حقوق کی جنگ کا آغاز کیا جن پر معاشرتی و سماجی زندگی کے راستے بند کر دیئے گئے تھے۔
کہیں مقامی زبان مسئلہ بنتی تو کہیں گوری رنگت اور غیر مسلم ہونا مانع ٹہرتا ،مگر وہ ہمت اور بے لوث جذبۂ ایثار کے ساتھ ہر رکاوٹ کو روندتی آگے بڑھتی گئی۔ ایک چھوٹے سے اسپتال سے شروع ہونے والا جذام کے مریضوں کا علاج تیزی سے وسعت پاتا گیا۔ 1963 میں ’’میری ایڈلیڈ لپروسی سینٹر ‘‘میں ڈاکٹر آئی کے گل نے مریضوں کا باقاعدہ علاج شروع کیا ۔ خدا نے رتھ فاؤ کی نیت کا اخلاص جانچتے ہوئے اس کی کوششوں میں اتنی برکت ڈالی کے چند ہی برس بعد اس سینٹر کی نئی شاخوں کاآغاز ہوا جہاں تپ ِدق اور نابینا افراد کا بھی علاج کیا جانے لگا، اور اندرونِ ملک کے علاوہ انڈیا اور افغانستان سے بھی مریض آنے لگے۔
ہر نئی کامیابی کے ساتھ رتھ فاؤ کے عزائم بلند ہوتے گئے، اس نے جرمنی اور پاکستان سے فنڈز جمع کیے تاکہ کراچی اور راولپنڈی میں مزید ہسپتال بنائے جا سکیں ۔جذام کے خلاف اس کی اعلانیہ جنگ کو سراہتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے اسے1969 میں ستارۂ قائدِاعظم سے نوازا تو جرمنی کی طرف سے اعلیٰ سول اعزاز ’’آرڈر آف میرٹ ‘‘ عطا کیا گیا ۔
ان کی شخصیت میں ناجانے ایسے کیا بات تھی کہ وہ سر ڈھانپ کر جہاں بھی جاتی ‘ چاہے سنگ دل طالبان ہوں یا قبائلی علاقہ جات کے غیور پٹھان ، یا پنجاب و سندھ کے عیاش وڈیرے وجاگیردار ۔ہر کسی کی آنکھ خود بہ خود جھکتی چلی جاتی ۔ وہ اسی ڈھکے سر کے ساتھ سرد جنگ کے دوران کابل، جلال آباد ، بامیان ، ہرات اور مزار شریف بھی گئی ۔۔اسے احمد شاہ مسعود نے بھی اسی کشادہ دلی سے خوش آمدید کہا جس طرح حکمت یار نے۔وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتی ، قہوہ پیتی ‘ نہ مذہب کا فرق آڑے آتا نہ ہی سوچ و نظر کا اختلاف‘ کیونکہ ہر کوئی آگاہ تھا کہ رتھ فاؤ انسانیت کی مسیحا ایک سادہ دل اور نیک فطرت عورت ہے جو پاکستان کی ’’مدر ٹریسا‘‘کہلائے جانے کے بجا طور پر حقدار تھی ۔
سنہ 1979 میں جذام کے خلاف اس کے عزائم کی مضبوطی کو بھانپتے ہوئے حکومت ِپاکستان نے رتھ فاؤ کو فیڈرل ایڈوائزر آف لپروسی کے عہدے پر تعینات کیا جس پر ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اس نے نیشنل لپروسی کنٹرول کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی برس رتھ کو ایک اور سول اعزاز ’’ہلال ِامتیاز‘‘ سے نوازا گیا ۔ گزرتے ماہ و سال کے ساتھ جوں جوں رتھ فاؤ کی لپروسی وار کا دائرۂ کار وسیع ہوتا گیا ۔ پاکستان سے ناصرف اس موزی مرض کا شکار افراد کی تعداد کم ہوتی گئی بلکہ عوام میں یہ شعور بھی بڑھتا گیا کہ دھتکارکر معاشرے سے کاٹ دینے کے بجائے ان لوگوں ساتھ دینا ضروری ہے کہ مرض سے زیادہ اپنوں اور پرایوں کی حقارت اور تضحیک آمیز رویہ مریض کو لے ڈوبتا ہے۔
اگرچہ ان کی پیدائش جرمنی کی تھی مگر ان کا دل پاکستان میں تھا ۔1988 میں پاکستان کی شہریت مل جانے کے بعد تو رتھ فاؤ جیسے یہیں کی ہوگئیں۔ ان لوگوں سے نا ان کا خون کا رشتہ تھا نا مذہب کا ۔نہ ہی سیاسی و معاشرتی پس ِ منظر میں کوئی یکسانیت تھی ۔
مگر پھر بھی پاکستانی انہیں کبھی اجنبی نا لگے تھے۔ وہ جذام کے خطرناک مریضوں میں شب و روز گزارتی ، ٹی بی کے خون تھوکتے افراد کو اپنے ہاتھوں سے پانی اور دوا پلاتی انہیں کبھی کسی سے رتی بھر بھی کراہیت محسوس نہ ہوئی تھی ۔ یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ وہ ہم گناہ گاروں پر اللہ پاک کی رحمتِ خاص تھی۔ بالاآخر ان کی شبانہ روز کاوشیں ثمر بار ہوئیں اور 1996 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کو ’’لپروسی فری لینڈ‘‘ قرار دیا جو ایشیاء میں یہ اعزاز حاصل کرنے والا پہلا ملک تھا ۔
مگر رتھ فاؤ کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ، ملک کے کسی بھی کونے سے کوئی بے آسراء، بے یار و مدد گار مریض ، معذور و بے کس شخص صدا بلند کرتا تو وہ آندھی طوفان کی پرواہ کیئے بغیر دوڑی چلی جاتیں۔2005 کا خوفناک زلزلہ ہو یا 2010 کا تباہ کن سیلا ب۔۔رتھ ہر جگہ ہر کڑے وقت میں ہم وطنوں کی مدد میں پیش پیش رہیں ۔ بڑھتی عمر کے ساتھ انہیں کئی عوارض گھیرتے گئے مگر خدمت ِ خلق کا جنون اور کچھ نا کچھ کرتے رہنے کی رتھ فاؤ کی لگن انہیں چین سے نا بیٹھنے دیتی تھی ۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ ’’دی لاسٹ ورڈ از لو‘‘ (محبت حرفِ آخر ہے)کے نام سے اپنی ایڈونچر سٹوری لکھنے میں مصروف رہی ، جو 10 اگست 2017 تک زیر ِ اشاعت تھی کہ وقت رخصت آپہنچا ۔امید ِواثق ہے کہ رتھ کی شخصیت اور زندگی کی طرح اس کی سوانحِ حیات بھی منفرد ، خوبصورت اور مسحور کن ہوگی ۔
رتھ فاؤ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی‘ کیونکہ دائمی حیات انہی کو ملتی ہے جو دلوں میں زندہ رہتے ہیں
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں