The news is by your side.

ہماری بقاء علم اور شعورکی بیداری میں ہے

 وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم  اپنے ہونے کا ثبوت دلیل کے ساتھ دیں اور اپنے ملک کی خاطر ہر اس نفرت اور شر انگیز سیاسی و مذہبی حربوں سے جان چھڑالیں۔ پاکستان میں پہلی دفعہ کسی بااثر شخصیت کو جواب دہ ہونا پڑا ہے اور وہ بھی ایسا بااثر کے جس پر پورے ملک کا انحصار ہوتا ہے۔ یوں لکھتا ہوں کہ بلی سے دودھ کی پوچھ گچھ ہوگئی ہے اور لازمی ہے کہ بلی دودھ پینے سے کب تک اپنے آپ کو باز رکھ سکتی تھی۔ پھر اسے اپنی طاقت کا اپنے اثر رسوخ کا بھی پتہ تھا یاگھمنڈ تھااس کی اپنی نظر میں وہ ہر قسم کے قانون سے بالاتر تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی اس چوری کو چوری ماننے کو تیار ہی نہیں۔

موجودہ سیاسی ماحول میں ایک خوف کی بو ہر طرف محسوس کی جا رہی ہے مگر کوئی بھی اس کا تذکرہ کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔ کہیں تحت الشعور میں فوج کے  دوبارہ اقتدار میں آنے کا کوئی خیال سراٹھا تاہے اور ان لوگوں کو خوفزدہ کردیتا ہے۔کوئی پاکستان کو معاشی طور سے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے ، کوئی دہشت گردی کے ذریعے سے عوام الناس کو خوفزدہ کرنے میں لگاہوا ہے اور کوئی گدھ بن کر لوٹنے کھسوٹنے کو اپنا ایمان بنائے بیٹھا ہے۔

پاکستان کا سب مستحکم اور باوقار ادارہ فوج ہے جس نے نہ صرف اپنی دھاک داخلی سطح پر بھی بیٹھارکھی ہے بلکہ ساری دنیا پر پاکستانی فوج کا خوف طاری ہے۔ جس کا ثبوت گاہے بگاہے ساری دنیا کو پیش کیا جاتا رہا ہے (اسکا زیادہ اچھا جواب ہمارے پڑوسی دے سکتے ہیں)اور یہی وجہ ہے کہ اتنی دہشت گردی برداشت کرنے کے باوجودبھی پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہے (الحمدوللہ)۔ دشمن کی سازشیں روزِ اول سے پاکستان کو غیر مستحکم رکھنے کی رہی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے داخلی حالات کبھی بھی مستحکم نہیں رہے سکے۔

پاکستانی طالب علم نے 6 عالمی ریکارڈ بنا ڈالے*

 ہم کسی نہ کسی انتشار زدہ موسم کی زد میں رہتے ہیں یا پھر کوئی قدرتی آفت ہمیں گھیرے رکھتی ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے تو دہشت گردی کا دیو ہم پر بری طرح سے حاوی ہے۔دنیا کے بہت سارے ممالک  ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ دہائیوں میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے  پہلے  ترقی پذیر اور پھر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جا کر کھڑے ہوئے ہیں۔ آخر ایسی کون سی وجوہات رہی ہوں گی جن کی وجہ سے پاکستان ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک کی فہرست سے نکل کر کہیں بہت ہی گہرائی میں گرتا چلا گیا ہے۔

 یقیناہم نے علم سے منہ موڑ لیا ہوگا اور کہیں قلم کی جگہ ہتھیاروں نے لی ہو یا پھر نشے کی لت ہمارے طالب علموں کو تباہ کرتی چلی گئی۔ ساری دنیا اوپر کی طرف اٹھتی جا رہی ہے اور پاکستان تنزلی کی جانب گامزن ہوگیا ۔ پھرپاکستانیوں نے دنیا جہان میں اچھے مواقع تلاش کرنا شروع کئے اور جیسے جیسے مواقع میسر آتے گئے لوگوں نے پھر سے ہجرتیں شروع کردیں وہ تمام قربانیاں بھی بھول گئے جو ان کے آباؤ اجداد نے اس ملک کے حصول کے لیے دی تھیں۔اس طرح سے پاکستان کو برین ڈرین جیسے ایک اور مرض نے آگھیرا ۔

مذکورہ صورتحال پر قطعی دھیان نہیں دیا گیا اور مسائل روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے چلے گئے۔ ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوتا چلا گیا۔ ہوسکتا ہے آپ کو یہ سب پڑھ کر محسوس ہو رہا ہو کہ یہ سب کیسی باتیں ہیں ، یہ سب حقیقت ہے اپنے ذہن پر زور دیجئے پاکستان دنیا کے ان بارہ ۱۲ ملکوں میں سے ایک تھا جنہوں نے جرمنی کو دس سال تک سالانہ خرچہ دیا اور اس طرح کی اور بہت ساری قابل فخر باتیں تاریخ کا حصہ ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم تاریخ میں کیا رقم کروا رہے ہیں۔

وہ لڑکی جس نے تعلیم کے لیے جنگ لڑی*

 دنیا کو دوسری جنگِ عظیم کے بعدیہ احساس ہوگیا کہ تعلیم وہ واحد ہتھیار ہے جو زندگی کو سہل اور آسان بنانے کے لیے  سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پاکستان کو وجود میں آئے ستر سال گزر گئے اور ہم آج تک پاکستان میں رائج کرنے کے لیے ایک نظام ہی نہیں ڈھونڈ سکے ہم آج تک آئین میں ترامیم پر ترامیم کئے جا رہے ہیں ہم اپنے ملک کے قابل لوگوں کو باہر جانے سے نہیں روک پا رہے ہمیں یہی نہیں پتہ کہ ہمارے ملک کی سرزمین کون اور کن عزائم کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔

 آخر ان سب نااہلیوں کا ذمہ دار کون ہے ۔ پاکستان کا ہر شہری پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے ۔ انتخابات ہوتے رہے لوگ ہر بار انہی لوگوں کو ووٹ دیتے رہے جو صرف اور صرف اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے انتخابات میں شریک ہوتے ہیں اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر بھول جاتے ہیں کہ ہم کن کے ووٹوں کی بدولت یہاں تک پہنچے ہیں۔ ہم نے علم جیسے زیور سے آراستہ ہونے کی بجائے اسے بھی اتنے مختلف نظاموں میں تقسیم کر رکھا ہے کہ ایک طالب علم دوسرے طالب علم کے تعلیمی نظام سے بالکل بے خبر ہوتا ہے ۔ ہم پاکستانیوں نے ہر کام کو کاروبار بنا لیا ہے اور تعلیمی ادارے بھی کسی کاروباری نظام کی مانند ہوئے جا رہے ہیں۔

پاکستان کو جب بھی کس بھی قسم کے مشکل وقت کا سامنا تھا یا ہوا ‘ افواج پاکستان سیسہ پلائی دیوار کی طرح پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے لیے  موجود رہی ہیں۔ ہماری فوج نے پاکستان کے لیے  ہر محاذ پر جنگ لڑی ہے ۔ زلزلہ ہو یا پھر سیلاب یا پھر کہیں تودہ گرجائے یا پھر کسی شہر میں کوئی عمارت گرجائے۔ پاکستان کی افواج اپنی خدمات کے ساتھ وہاں آن پہنچتی ہے۔ اس وقت ساری دنیا ہی دہشت گردی کے خلاف بر سرِ پیکار ہے ابھی اسپین میں تازہ واقع پیش آیا ہے مگر سب سے زیادہ ہم اس دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں ہماری افواج ان تھک لگن سے ان دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے  برسرِ پیکار ہے۔اس سلسلے میں مختلف نوعیت کے عسکری آپریشن کئے گئے اور ابھی بھی جاری ہیں۔

سڑک پر تعلیم دینے والے ماسٹر ایوب کی کہانی انٹرنیٹ پر مقبول*

 آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ گرتے ہوئے تو سنبھالا دیا گیا مگر قدرے سنبھلے ہوئے پاکستان کو مزید مستحکم کرنے کی کوششیں اس طرح نہیں کی گئیں جیسے کے دوسرے معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے  کی جاتی رہی ہیں۔ پاکستان کے استحکام کے لیے سب سے اہم تعلیم کو عام کرنا ہے ۔ تعلیم ہی وہ  بنیاد ہے جو ڈیموں کو نہ بننے دینے والوں کی سیاست کا خاتمہ کر اسکتی ہے‘  تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو ملک سے کسی حد تک دہشت گردی کے اسباب پر عبور حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ تعلیم سے ملنے والی آگاہی ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر آدمی طبعی محنت مشقت سے معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے مگر ہر فرد اپنے ووٹ کے صحیح حقدار کو پہچان کر اسے ووٹ دے کر بھی اپنے ملک پر احسانِ عظیم کرسکتا ہے۔

اس مضمون کے توسط سے پاک فوج سے درخواست کرنی ہے کہ کوئی ایسا آپریشن شروع کیا جائے جس سے ملک میں تعلیم کے خلاف لوگوں کو منظرِ عام پر لایا جائے اور ایسے لوگوں کو ایسے اداروں کو آگے لایا جائے جو حقیقی معنوں میں تعلیم کے فروغ اور عام کرنے کے لیے  کوشاں ہوں اور پاکستان کو ایک باشعور پاکستان بنانے کا عزم رکھتے ہوں اور اپنے اپنے طور سے کام بھی کر رہے ہوں ان سب کو ایک جگہ کرنا ہے اور آپریشن تعلیم ِعام شروع کرنا ہے ۔ ایک دفعہ ایک نسل تعلیم یافتہ ہوگئی تو شعور کی بنیاد پر ملک میں دائمی تبدیلی آجائے گی اور پاکستان کسی کا محتاج نہیں رہے گا ۔قانون کی بالادستی اور عدالتوں کے منصفانہ فیصلے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور قوم ہی تسلیم کرسکتی ہے ۔ فیصلہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام نے ہی کرنا ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں