The news is by your side.

تخت و تاج کی قیمت جان لو حکمرانو

آج ہمارے پاکستان پر کچھ ایسے لوگ حکومت کر رہے ہیں جو یہ بات بھول چکے ہیں کہ ان سب سے بھی بڑی ایک الله کی ذات ہے‘ انہیں وہ دن یاد نہیں جب یہ چھوٹے بچے تھے اور اپنے پاؤں پر کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے، تو صرف وہ الله ہی کی ذات تھی جس نے انہیں چلنا سکھایا اور بولنے کی قوت دی ۔ آج یہ سب دنیا کے طاقت کے نشے میں اتنے ڈوب چکے ہیں کہ انہیں سمجھ نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ آج کوئی منسٹر ہے، کوئی چودھری ہے، کوئی ناظم ہے تو کوئی بادشاہ سلامت بنا پھر رہا ہے۔

قاری ثاقب رضا ایک فقیر اور بادشاہ کا قصہ سناتے ہیں کہ ایک فقیر کسی بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا‘ بادشاہ یہ تحت و تاج کیا ہوتے ہیں ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی تو بادشاہ ہنس کر بولا اے فقیر تم ان کی قدر کیا جانو، تمہیں کیا پتا ہو کہ ان میں کتنی طاقت ہے۔ یہ کہہ کر بادشاہ نے فقیر کو ا پنے دربار سےچلےجانے کا حکم دیا ۔

وقت گزرتا رہا ‘ ایک دن بادشاہ جنگل میں شکار کے لیے نکلا اور اس کا گھوڑا بدک کر اسے ایسی دور جگا لے گیا جہاں پر نہ کوئی پانی تھا اور نہ ہی کوئی کھانے کی شے میسر تھی ۔بادشاہ بھوک اور پیاس کی شدت سے نڈھا وہاں پڑا تھا کہ اسی فقیر کا وہاں سے گزرہوا اور اس نے صدا دی کہ لو پانی لے لو۔

بادشاہ جاں بہ لب تھا ‘ ایسے میں فقیرنے کہا کہ کیا تمہارے پاس اس پانی کی کوئی قیمت ہے؟‘ تو بادشاہ کہنے لگا میں اس ملک کا بادشاہ ہوں، فقیر نے کہا کہ تم ہوتے ہو گے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، اگر کوئی پیسا نہیں تو اپنی آدھی حکومت میرے نام کر دو، بادشاہ نے سوچا کہ اگر پانی نہ ملا میں تو ویسے ہی مر جاؤں گا اور حکومت بھی نہیں رہے گی۔ بادشاہ مان گیا اور فقیر نے بھی اسے پانی دے دیا، لیکن وہ پانی اس کے گلے میں اٹک گیا ۔ اس پر فقیر بولا کہ اے بادشاہ ! میں حکیم بھی ہوں اگر آپ کہیں تو علاج کر دوں، لیکن اس کے لئے مجھے آپ کی پوری حکومت چاہئے، بادشاہ کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا سواس نے حامی بھر لی۔ جب علاج کرچکا تو فقیر نے اسے کہا کہ اے بادشاہ یاد کر تو نے مجھے اس حکومت کے زعم میں دربار سے نکالا تھا‘ اب جان لے کہ تیرے تخت و تاج کی قیمت دو گھونٹ پانی سے زیادہ نہیں ہے۔

اس واقعے کے کو مثال بناتے ہوئے میں پاکستان پر مسلط ان لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ وقت ہر کسی پر آتا ہے۔ حکمرانوں ماضی کو چھوڑو‘ اپنے مستقبل کو ہی دیکھو!! جب تم سب کا چلنا پھرنا بند ہو جائے گا‘ تم درست طریقے سے بول بھی نہیں سکو گے، ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب تم دوبارہ چارپائی پر ہو گے، تمہارے بچے تم سے دور بھاگ جائیں گے، تم ترسو گے اپنی اس زندگی کو اور دوبارہ وہ موقع مانگوںگے اور کہو گے کہ میں آج کے بعد کبھی لوگوں کا مال نہیں کھاؤں گا، لوگوں کو انصاف دلواؤں گا لیکن وہ موقع تمہیں واپس نہیں دیا جائے گا۔

تم اپنی زندگی سے تنگ آ جاؤ گے، لیکن اس وقت کیا فائدہ ہو گا معافی مانگنے کا اور پھر تنگ آکر ڈاکٹر کو کہو گے کہ وہ تمہیں کوئی زہر کا ٹیکا دے دیں لیکن کوئی ڈاکٹر تمہاری سابقہ قوت کے خو ف سے تمہاری خواہش پوری نہیں کرے گا۔ کاش تم نے اس وقت سمجھا ہوتا اور لوگوں کو اپنی طاقت سے انصاف دلوایا ہوتا۔

ہمارے مولانا بڑی پیاری بات کہتے ہیں کہ پھر بھی الله کی ذات تمہیں معاف کر دے گی کیونکہ تم اس کے بندے ہو دیکھو کیسا وہ وقت ہو گا
ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب تم اس دنیا میں نہیں رہو گے‘ لوگ تمہیں تیار کریں گے‘ چار لوگ تمہیں کاندھا دیں گے، اور بالاخر تمہیں تمہاری آخری آرام گاہ میں چھوڑ دیا جائے گا۔

یاد رکھو اے ہمارے حاکمو! قیامت والے دن تم سے پوچھا جائےگا کہ ہم نے تمہیں اتنا کچھ دیا تم نے ہمارے بندوں کے ساتھ کیا کیا؟ لہذا ابھی بھی وقت ہے کہ حکمران رب کو اپنا حاکم مان کر اس کی جانب آجائیں، وہ ابھی بھی بلا رہا ہے اور جب تک سانس ہے ‘ اس کے دروازے کھلے ہیں۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email