The news is by your side.

قوم کو ہوشیار نہ ہی کریں تو بہتر ہے

ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے چور سے کہو چوری کرے اور شاہ سے کہو جاگتے رہنا- وطن ِعزیز پاکستان میں سیاست کے ٹھیکیداروں کا یہی کردار ہے جس کی بدولت باریوں کی سیاست نے جنم لیا ہے یعنی جیتنے والے جیسے بھی انتخابات میں کچھ اکثریت سے جیت گئے ہو ں مگر ہم تم سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں اور وہ اس شرط پر کہ اگلی باری اقتدار ہمیں دلانے میں مددگار بنوگے۔

پاکستان میں جماعتی طرز پر انتخابات ہوتے ہیں اورگزشتہ تین دہائیوں سے دو جماعتیں ہی اس کھیل میں کلیدی کردار ادا کرتی آرہی ہیں، باقی جماعتیں تو خانہ پوری کرنے یاصاحب ِاقتدار کے حمایتوں میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ اس ہی دور میں وقتاً فوقتاً یہ جماعتیں مختلف بحرانوں سے بھی گزریں مگر ہمارے ملک کے نظام کی بدولت سب کچھ کر کے پھر اقتدار کے مزے لینے ایوانوں میں ہیں۔

ان دونوں جماعتوں کا تعلق بھی ملک کے دو اہم صوبوں سندھ اور پنجاب سے ہیں یعنی یہ اپنے اپنے صوبوں میں تو حکومت بناتے ہی ہیں، وفاق میں حکومت بنانے کے لئے یہ سارا جوڑتوڑ کیا جاتاہے۔ اس سارے منظر نامے میں تحریک انصاف وہ سیاسی جماعت ہے جو گزشتہ سالوں میں ایک تیسری بڑی سیاسی جماعت کی شکل میں سامنے آئی ہے اور اس جماعت نے پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کر رکھا ہے اور اس سیاسی جماعت کی مرہون منت پاکستانی قوم میں بھی کچھ نا کچھ جاگنے کے آثار دیکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی اب کہیں جا کہ دوقومی سیاسی جماعتوں سے سیاست آزاد ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور پاکستانی سیاست کے افق پر ایک نیا ستارانمودار ہونے کو تیار دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان میں ایسی کئی سیاسی جماعتیں ہیں جن کاجنم اور پرورش ڈکٹیٹر وں کے مرہون منت ہے ، دراصل برطانوی طرز کی سوچ تو ہمارے ذہنوں سے نکلتی ہی نہیں ، جن کا بنیادی نقطۂ نظر یہی تھا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو ، یہاں تقسیم کرنے اور ہونے کی بہت ساری دلیلیں پہلے سے ہی موجود ہے ۔ اب جیسے تربیت کرنے والے ہوں گے تربیت تو ویسی ہی ہوگی۔

پاکستان میں سیاست کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ میں کسی کے کام نہ آنے کی بھرپور صلاحیت ہو مگر کسی کا بھی سامنا کرنے کا حوصلہ انتہائی ضروری صفت ہے (ویسے تو یہاں حوصلے کی جگہ جس لفظ کا استعمال ہونا چاہئے وہ آپ سب سمجھ گئے ہیں)، ایک اضافی قابلیت الزام تراشی کرنے کا ہنر بھی خوب آتا ہو تو آپ کو تو پھر کوئی کامیاب ہونے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ ان سے ملتی جلتی صفات اضافی قابلیت سمجھی جاتی ہیں۔

عدالت کو ساری دنیا میں کسی مقدس جگہ سے کم تصور نہیں کیا جاتا‘ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہر خاص و عام کو انصاف ملتا ہے اور انصاف کرنے والے کو منصف کہا جاتا ہے ۔منصف قدرت کی بنائی ہوئی زمین پر حقیقی معنوں میں اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے اور اس سے وہ کام لیا جاتا ہے جو قدرت روزِمحشر ساری کائنات کے ساتھ کرے گی۔ منصف ہی ہے جو زمین پر بسنے والے انسانوں کا مستقبل بناتا ہے یا پھر بگاڑ بھی دیتاہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں انصاف کی ترسیل کا انتہائی فرسودہ نظام رائج ہے اور لوگ سالہا سال سے اپنے مرحوم آباؤ اجداد کے لیے انصاف کی قطاروں میں نامعلوم وقت سے کھڑے ہیں

اس سب کےباوجود بھی پاکستان میں انصاف کی بالادستی اور تبدیلی کا عمل جاری ہے اور اس عمل کی ذد میں ملک کے سابق نا اہل وزیر اعظم صاحب اور ان کے اہل خانہ آچکے ہیں‘ یعنی انصاف کا اطلاق وہیں سے ہوا ہے جہاں سے ہونا چاہیے تھا‘ اب یہ کام تیزی سے آگے کی جانب بڑھ ریا ہے ۔ عدالتیں کام کر رہی ہیں فیصلے ہورہے ہیں۔ اللہ کے حکم سے اب انصاف ہوتا چلا جائے گا۔

۲۰۱۸ انتخابات کا سال ہے ۔جیسے جیسے ۲۰۱۸ قریب آتا جا رہا ہے‘ سیاسی گہما گہمی میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، اگرغور کریں تو احساس ہوگا کہ اکتو برکا مہینہ آدھے سے زیادہ گزر چکاہے مگر سردی کسے کہتے ہیں کم از کم کراچی والوں کو تو نہیں پتہ چل رہا ۔اب معلوم نہیں ہو رہا کہ یہ اسلام آباد کی گرما گرم سیاست سے کراچی میں گرمی کیوں جانے کا نام نہیں لے رہی۔ اصل میں کراچی میں بظاہر کوئی سیاسی جماعت اپنا اثر و رسوخ واضح نہیں کر پا رہی ۔ جبکہ گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان کے نامور سیاستدان اور سابق صدور کی فہرست میں موجود ، قوم کو اپنے علاوہ دوسرے سیاست دانوں سے ہوشیار رہنے پر زور دیتے دکھائی اور سنائی بھی دئیے ہیں۔

ہمارے تمام ہی سیاست دان آج کل قوم کو ہوشیار رہنے کی صلاح دیتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ قوم کے خیر خواہ قوم کو دوسرے سیاستدانوں سے ہوشیار رہنے کوکہہ رہے ہیں اور دوسرے ان سے ہوشیار رہنے کو کہہ رہے ہیں۔ آخر قوم کس سے اور کیسے ہوشیار ہوسکتی ہے‘ دن بھر محنت مشقت سے دو وقت کی روٹی کماکر اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرتی ہے ، کسی نہ کسی کام کے لیے لائنوں میں لگی رہتی ہے ، قدرتی آفات کا سامنا اپنی جان دے کر یہ قوم کرتی ہے‘ ، کہیں بھی گولیاں چلیں تو بھی یہ قوم اپنے سینے پیش کرنے سے نہیں چوکتی، دہشت گردوں کی زد میں بھی قوم ہی آتی ہے اور معلوم نہیں کتنی ہی زندگیاں ان سیاستدانوں کو سیاست دان بنانے میں اپنی بھینٹ دیتی ہے۔

آپ زندہ رہتے ہیں تو قوم مشکل میں رہتی ہے اور آپ کی موت بھی قوم کیلئے مشکل کا ہی باعث بنتی ہے ۔ آسان لفظوں میں اتنا سمجھ لیجئے کہ قوم کا تو جینا اور مرنا بے معنی ہے ۔خدارا ! قوم کو ایک دوسرے سے ہوشیار رہنے کا مشورہ یا صلاح نا دیجئے کیونکہ یہ قوم ہوشیار ہوگئی تو پھرآپ خود ہی سوچ اور سمجھ لیجئے کہ اس ہوشیاری سے آپ بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

Print Friendly, PDF & Email
شاید آپ یہ بھی پسند کریں