The news is by your side.

انصاف ‘ معاشرتی توازن کا واحد ستون

یہ بات بہت یقین سے لکھ رہا ہوں کہ ہر عام پاکستانی دن میں ایک بار یہ ضرور سوچتا ہے کہ یہ معاشرہ کیسے ٹھیک ہوگا، کب یہ ٹریفک پولیس والے بغیر کسی سے پیسے لئے اسے چھوڑ دیا کریں گے یا جرم کے مطابق جرمانہ کریں گے، کب کسی بڑے نامی گرامی شخص کی زیادتیوں کی پوچھ گچھ ہوگی، کب ہمیں علاج معالجے کی بنیادی سہولیات میسر ہوں گی، کب ہماری عزتیں محفوظ ہوں گی، کب ہمارے بچوں کو یکساں تعلیمی نظام میسر آئے گا اور کب بغیر کسی سفارش کے کسی اہل شخص کو نوکری ملے گی، کب ہمیں سفری سہولیات میسر آئیں گی اور کب ہمیں پروٹوکول جیسی بلا سے نجات ملے گی ۔ اس طرح کے انگنت سوالات روز ہمارے ذہنوں میں گونجتے رہتے ہیں، ان سوالات کی وجہ سے بلند فشار خون اور شوگر جیسے امراض بہت تیزی سے ہم پر حملہ آور ہوئے جا رہے ہیں۔

یوں تو سماجی میڈیا مختلف قسم کی معلومات کے لیے انتہائی موثر کردار ادا کر رہا ہے اور یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سماجی میڈیا انسان کے اندر چھپے بہت سارے رازوں پر سے پردہ ہٹارہا ہے یعنی جو بات آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی ہوتی یا آپ جو کچھ کہنا چاہا رہے ہوتے ہیں تو سماجی میڈیا پر آپ کو اپنا مطلوبہ مواد باآسانی دستیاب ہوجاتا ہے اور آپ کسی کے کاندھے پر رکھ کر اپنا نشانہ لگا لیتے ہو۔

خیر موضوع کی جانب آتے ہیں کل ہمارے ایک خیر خواہ نے ایک انہتائی پر اثر تحریر ہمیں واٹس ایپ کے ذریعے بھیجی۔ یو ں تو تحریروں کا ایک نا رکنے والا سلسلہ چلے ہی جا رہا ہے مگر اس تحریرمیں کوئی خاص بات ہے یا پھر اسکا تعلق موجودہ حالات کی بھرپور عکاسی کر رہا تھا۔ مندرجہ ذیل میں ایک سبق آموز حقیقت پر مبنی تحریر ہے جو اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ کس طرح معاشرے مستحکم ہوتے ہیں۔یہ حقیقت امریکی ریاست ٹکساس سے تعلق رکھنے والی کارلا فے ٹکر نامی خاتون کی زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

ٹیکساس کی ایک جیل میں 37 سالہ کارلا فے ٹکر کو موت کا انجکشن لگایا گیا، موت کے بستر(ڈیتھ بیڈ )پر لیٹے اس نے ہنس کے انکھیں بند کر لیں، ڈاکٹر نے نبض دیکھی اور موت کا اعلان کر دیا اور کہا ” ایسی پرسکون موت میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی’کارلا کی ماں دھندہ کرنے والی عورت تھی، بچپن ہی سے وہ اپنی ماں کے ساتھ آتی جاتی اور نشے پر لگ گئی پھر آہستہ آہستہ ماں کے نقش قدم کر چلنے لگ پڑی، 10 سال بعد اُسے خیال آیا کہ اُسے اس دھندے کو چھوڑ کے کچھ اور کرنا چاہیئے،کارلا نے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ گاڑی چھیننے کا منصوبہ بنایا ۔بد قسمتی سے موقعہ واردات پر مزاحمت ہوئی ، کارلا اور اس کے بوائے فرینڈ نے گھبراہٹ میں امریکی جوڑے کو قتل کر دیا۔ کچھ دنوں بعد دونوں پکڑے گئے اور عدالت نے انہیں قانون کے مطابق سزائے موت سنا دی۔ پھر اپیلوں کہ چکروں میں کافی عرصہ گزرتا گیا، اس دوران جیل کے عملے نے دیکھا کہ کارلا جو کہ شرابی اور بد زبان عورت تھی اس نے اچانک سب کچھ چھوڑ کراپنی مذہبی کتاب بائبل(انجیل) کامطالعہ شروع کر دیا، اس کی زبان صاف ہو گئی اور اخلاق بہت اچھا ہو گیا، وہ اکثر اپنے سیل میں انجیل پڑھتی رہتی،جس کی وجہ سے کارلا نے ملنا جلنا اور بات چیت ختم کر دی۔

ایک سال بعد وہ مبلغہ بن گئی اور ایسی مبلغہ جس کے الفاظ میں تاثیر تھی، اس نے جیل میں ہی تبلیغ شروع کر دی۔ عبادت و ریاضت کو اپنا معمول بنا لیا اورکارلا کی تبلیغ کی بدولت جیل میں کئی لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ وہ لوگ جو اسے قاتلہ اور سنگ دل کہتے تھے وہ اس کے پیچھے چلنے لگے اور جیل میں ایک روحانی انقلاب آ گیا۔ اس بات کی خبر جب میڈیا کو پہنچی تو وہ جیل پر ٹوٹ پڑے، پھرہر اخبار میں کارلا شہہ سرخی بن گئی۔ہر شخص نے اس کارلا کی فوٹو اُٹھائی اور اسے معافی دلانے کے لیے ہونے والے مظاہروں میں پہنچ گیا ، حقوق انسانی کی تنظیموں نے امریکہ میں ’کارلا بچاؤ‘ تحریک شروع کر دی،یہ احتجاج یہاں تک بڑھا کہ شائد پہلی بار پوپ جان پال نے عدالت کو سزا معافی کی باقاعدہ درخواست دے دی لیکن عدالت نے یہ درخواست رد کر دی۔

سزائے موت سے پندرہ دن قبل کنگ لیری نے سی این این کے لیے کارلا کا انٹرویو جیل میں کیا اس انٹرویو کے بعد پورے امریکہ نے کہا کہ نہیں یہ وہ قاتلہ نہیں یہ معصوم ہے۔ لیری نے پوچھا ’تمھیں موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا‘، کارلا نے پر سکون انداز میں جواب دیا ’نہیں! بلکہ میں اس رب کو ملنا چاھتی ہوں جس نے میری پوری زندگی ہی بدل دی‘۔

امریکی شہریوں نے متفرقہ رحم کی اپیل ’ٹیکساس بورڈ آف پارڈن اینڈ پیرول‘ کے سامنے پیش کی۔ بورڈ نے سزا معافی سے انکار کر دیا، فیصلہ سن کر عوام ٹیکساس کے گورنر جارج بُش کے گھر کے سامنے آ گئے اور احتجاج کرنے لگے۔ امریکہ کے سب سے بڑے پادری جیکی جیکسن نے بھی کارلا کی حمایت کر دی، بُش نے درخواست سنی اور فیصلہ سنایاکہ ’مجھے کارلا اور جیکی جیکسن سے ہمدردی ہے لیکن مجھے گورنر قانون پر عمل داری کے لیے بنایا گیا ہے سزا معاف کرنے کے لیے نہیں، وہ اگر فرشتہ بھی ہوتی تو قتل کی سزا معاف نہ ہو سکتی تھی‘۔

موت سے دو روز قبل کارلا کی رحم کی اپیل سپریم کورٹ پہنچی تو جج نے یہ کہہ کر درخواست واپس کر دی کہ ’ اگر آج پوری دنیا بھی کہے کہ یہ عورت کارلا نہیں کوئی مقدس ہستی ہے تو بھی امریکن قانون میں اس کے لیے کوئی چھوٹ نہیں جس عورت نے قتل کرتے ہوئے دو انسانوں کو رعایت نہیں دی اسے دنیا کا کوئی قانون رعایت نہیں دے سکتا، ہم خدا کے سامنے اُن دو لاشوں کے جوابدہ ہیں جنہیں کارلا نے مار ڈالا‘۔

کارلا کا کردار ایک طرف رکھ دیجئے اور اس کے کیے کی سزا دینے کے لیے عدالتی نظام کا کردار دیکھ لیجئے۔ انصاف کے عملی مظاہرے کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں رہنے والےمجھ ایسے شخص کو تو سمجھ آگیا کہ امریکہ جیسے بیمار اور سڑاند زدہ ‘ معاشرے کو کیا چیز اتنا توانا اور زندہ رکھے ہوئے ہے ۔

اب مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول یاد آ جاتا ہے ’معاشرے کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی کے ساتھ نہیں‘۔ دراصل انصاف ہی معاشرے کا توازن برقرار رکھنے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد ہرقیمت پر انصاف کی عمل داری کو یقینی بناناہے جو کہ اسلامی شعار کے عین مطابق ہے اور یہ اسی دور کی باتیں ہیں۔ وہ تمام معاشرے یا ممالک جو آج ترقی کی منزلیں طے کرکے ترقی یافتہ بن چکے ہیں ‘ ان کے یہاں انصاف بلا تفریق کیا جاتا تھا اور کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں تو تفریق ہی تفریق ہے۔


اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں

شاید آپ یہ بھی پسند کریں