پاکستان کا شماران ممالک میں ہوتا ہے جو خوب صورت اور دلفریب نظاروں کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر وسائل سے مالا مال ہیں۔برف پوش پہاڑ،ہرے بھرے میدان،صحرا،جھیلوں اور دلکش ساحل کے علاوہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 780,000 ایکڑ پر مشتمل آبی مقامات ہیں جو کہ پاکستان کے کل رقبے کا 9.8فیصد ہے۔عام طور پر زمین کا وہ حصّہ جو پانی سے ڈھکا ہو ا ہو ‘ اسے آب گاہ کا نام دیا جاتا ہے۔
نیپال کی آب گاہوں سے متعلق نیشنل پالیسی (2003)کے مطابق پانی کے وہ اجسام جو مستقل ہوں اور زیر زمین پانی کے ذرائع سے یا بارشوں کے نتیجے میں وجود میں آئے ہوں آب گاہ کہلاتے ہیں۔اس کا مطلب کہ آب گاہیں دلدلی علاقے ہوتے ہیں جن میں پانی یا تو ٹھہرا ہوا ہوتا ہے یا حرکت کر رہا ہوتا ہے۔آب گاہیں عالمی ماحولیاتی نظام کا اہم ترین جزو ہوتی ہیں ،یہ مستقل بھی ہوتی ہیں اور عارضی بھی۔سیّاحت کے حوالے سے بھی یہ اہم مقام رکھتی ہیں۔
پاکستان میں آب گاہوں کے حوالے سے بنائے جانے والے پہلے’ جی آئی ایس ڈیٹا بیس‘،جس کے مطابق پاکستان میں 225آب گاہیں قابلِ رسائی ہیں(اور یہ آب گاہوں کی بہت بڑی تعداد ہے)ان میں سے 19کو ”رامسر کنونشن“ کے تحت عالمی درجہ دیا جا چکا ہے۔رامسر کنونشن ،ایران کے شہر رامسر میں 1971میں منعقد ہوا تھا۔یہ ایک عالمی سطح کا معاہدہ ہے جس کے تحت آب گاہوں کے تحفظ کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں اور وسائل مہیا کئے جاتے ہیں۔
رامسر کنونشن کے تحت عالمی سطح پر ایسی آب گاہوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جو متعین کردہ معیار کے مطابق عالمی اہمیت کی حامل ہیں تاکہ ان آب گاہوں کی حفاظت کے لئے ترجیحی بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں۔پاکستان عالمی سطح پر اس وقت پہچانا گیا جب 1976میں پاکستان نے رامسر کنونشن پر دستخط کئے۔ 2فروری کو ہر سال دنیا بھر میں آب گاہوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اس دن کی مناسبت سے آب گاہوں کی ماحولیاتی،معاشرتی ،معاشی اور ثقافتی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
آب گاہوں کو پانی کا محفوظ ذخیرہ یا قدرتی بینک بھی کہا جا سکتا ہے۔یہ دراصل ”قدرتی سپر مارکیٹ“ ہیں جہاں انسانوں،جانوروں اور پرندوں کے لئے وافر پانی اور خوراک کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔آب گاہوں کی اصطلاح بہت وسیع معنوں کی حامل ہے اس میں جھیلیں،دلدل،ساحلی علاقے،جوہڑ اور قدرتی ندی نالے سب شامل ہیں۔ان آب گاہوں کا ایک مکمل ماحولیاتی نظام ہوتا ہے جس میں مختلف اقسام کے جاندار زندہ رہنے کے لئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ آب گاہیں دراصل زندگی کی پناہ گاہیں ہیں۔دنیا بھر میں بے شمار لوگ اپنے ذریعۂ معاش کے لئے ان پر انحصار کرتے ہیں۔آب گاہیں عام طور پر اپنی سماجی اور معاشی قدر وقیمت کے اعتبار سے دیکھی جاتی ہیں کیوں کہ ملک کے مختلف سماجی اور معاشی پہلوؤں پر ان کا کافی اثر ہوتا ہے جیسا کہ زراعت،صنعت اور سیّاحت ۔ان کی قومی اور بین الاقوامی اہمیت کو سیّاحت میں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کسی بھی خطّے کے سماجی و اقتصادی حالات کا انحصار اچھی اور معیاری آب گاہوں پر ہوتا ہے۔آب گاہوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ پر قابو پانے کے لئے مصنوعی آب گاہیں بھی بنائی جاتی ہیں۔نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں آب گاہیں مسلسل خطرات کا سامنا کر رہی ہیں اور ایسے ماحولیاتی نظام میں شامل ہونے والی ہیں جنہیں شدید خطرات لاحق ہیں۔
وسیع پیمانے پر انسانوں کے پیدا کردہ خطرات کے باعث ہماری آب گاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ان خطرات میں آب گاہوں اور ان سے متصل اطراف کی زراعت اور دوسرے مقاصد کے لئے تبدیلی،پانی کے بہاؤ کے نظام میں تبدیلی ،جنگلات کی کٹائی ،آب گاہوں کی نامیاتی اور غیر نامیاتی آلودگی،حکمت عملی کی خامیاں اور ناقص انتظامیہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ آب گاہوں کے گھٹنے کے اسباب میں آبادی کا پھیلاؤ ،انسانی سرگرمیاں ،ڈیمز کی تعمیر،قدرتی نکاسی نظام کا خراب ہونا اور صنعتی فضلہ بھی شامل ہیں۔دنیا کے تمام خطّوں میں انسان سماجی،معاشی اور ماحولیاتی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔یہ مشکلات قدرتی وسائل بشمول آب گاہوں اور پانی کے ذرائع کی تباہی اور بد انتظامی کے نتیجے میں پیدا ہوئیں۔یہ تباہی کئی ملکوں میں خطرناک صورت حال کے ساتھ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ پانی کی عدم فراہمی اور غذائی تحفظ کے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔
ماہر ِ ماحولیات رفیع الحق نے بتایا کہ جتنے بڑے شہر اور بڑی تہذیبیں ہیں وہ دریا کے کنارے آباد ہوئے ہیں۔جب تہذیب آباد ہوئی تو ان کا طرزِ معاشرت آباد ہوا۔ہمارے سمندر،دریا اور جھیلیں تجارتی اور انسانی سفر کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔ان کی پیداوار سنگھاڑے یا پانی ٹھل،بیہہ اور اسی طرح کی بہت سی جڑی بوٹیاں اور مچھلیا ں ہیں۔یہ چیزیں معیشت کو ڈائریکٹ فائدہ پہنچاتی ہیں۔ہمارے ہاں چاول مخصوص علاقوں میں ہوتا ہے ‘ جب چاول اگایا جاتا ہے تو اس میں ٹخنوں ٹخنوں پانی کھڑا ہوتا ہے ۔چاول کا بیج زیادہ پانی میں بویا جاتا ہے۔دریا کے کنارے عموماً چاول کی کاشت ہوتی ہے اس پانی میں مچھلیاں چھوڑ دی جاتی ہیں ۔مچھلیاں اپنا بائیو پراڈکٹ جو نائٹروجن ہوتا ہے ‘ وہ دیتی ہیں اور اس نظام سے چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں۔ مطلب آپ ایک ہی زمین سے،ایک ہی جگہ سے،ایک ہی خطۂ اراضی سے دو فائدے اٹھاتے ہیں ‘ یعنی اناج بھی لے رہے ہیں اور مچھلی کی افزائش ِ نسل کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی ماہر نے مزید بتایا کہ مچھیرے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک میٹھے پانی کے اوردوسرے نمکین پانی کے۔منچھر جھیل میں ”موہانا“ کے نام سے ایک قبیلہ آباد ہے وہ اپنی زندگیاں کشتی پر گزارتے ہیں۔ان کا جینا مرنا،کھانا پینا،شادی بیاہ ہر چیز کشتی پر ہوتی ہے یعنی ان کا طرزِ معاشرت کشتی ہے۔یہ صرف ذریعۂ معیشت ہی نہیں بلکہ ذریعۂ ترویج و تمدن ہے۔انہوں نے کہا کہ جب سائبیریا میں سردیاں ہوتی ہیں تو بہت سارے پرندے سردی سے بچنے کے لئے نقل مکانی کرتے ہیں اور تقریباً 11یا 12ہزار کلومیٹر سفر کر کے وہ گرم پانیوں میں آتے ہیں۔گرم پانیوں میں جو ان کا پہلا مستقر ہوتا ہے وہ پاکستان کے علاقوں سے شروع ہوتا ہے اور وہ آب گاہیں جو گرم ہوتی ہیں جن میں برف نہیں جمتی ان کو وہ ٹھہرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
وہاں پر بھی جب نامساعد حالات ہوتے ہیں تو وہ وہاں سے پرواز کر کے ہمارے سندھ میں اور سندھ سے لے کر ہند تک چلے جاتے ہیں۔ اکتوبر،نومبر میں ان کی آمد شروع ہوتی ہے ،دسمبر میں یہ اپنے عروج پر ہوتے ہیں اور پھر یہ فروری سے واپس جانا شروع کر دیتے ہیں۔سردیوں کی مدت یہ پرندے ان گرم آب گاہوں پر گزارتے ہیں جیسے ہم گرمیوں کی چھٹیاں منانے سوات یا شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں۔
ماہرِ ماحولیات کے مطابق 2010اور2011کے سیلاب کے بعد ہمارے مڈلینڈ کے جو موسمی سیلابی علاقے ہیں‘ ان کو بھی آب گاہوں کے زمرے میں داخل کر دیا گیا ہے کیوں کہ وہاں بھی تین مہینے تک پانی کھڑا رہتا ہے۔ان کا شمار عارضی آب گاہوں میں ہوتا ہے۔عارضی آب گاہوں کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے اس کے فوائد و نقصانات کے بارے میں لوگ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں ہونے کے باوجود ہمارے پاس جنگلات تقریباً 5فیصد ہیں ، انگریز بہادر پالیسی لکھ گیا تھا تو ہمارے پاس فاریسٹ پالیسی موجود ہے،فاریسٹ ایکٹ موجود ہے۔ہمارے ملک کا تقریباً10فیصد حصّہ آب گاہوں پر مشتمل ہے۔ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل ،کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ایک پروگرام کے تحت پالیسی وضع تو کر دی گئی ہے لیکن اس کی اہمیت یہ ہوتی ہے ہر بار وہ کہیں نہ کہیں جاتی ہے اور پھنس جاتی ہے۔یہ تمام اہمیت ہونے کے باوجود ہم رونا روتے ہیں کہ پانی ختم ہورہا ہے ،ا گر کسی چیز کی قلّت ہوتی ہے تو اس کا ذخیرہ کیا جاتا ہے اسے محفوظ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر کسی علاقے میں پانی بند ہونے کا خدشہ ہوتا ہے تو اپنی ٹنکیوں اور ذخیرے کو بہتر بناتے ہیں۔ اس کی پالیسی وضع کی جاتی ہے جو کہ عقلمندی کا تقاضا ہے لیکن ہم نے اس کو ایک لایعنی خطۂ زمین سمجھ لیا ہے کہ بعض اشخاص کے لئے یہ پکنک پوائنٹ اور سیر و تفریح کا باعث ہے ۔
اس بات کا ادراک نہیں لوگوں کو کہ یہ جو 600یا1200ملین گیلن پانی آرہاہے یہ آب گاہ سے آرہا ہے۔آب گاہ سے پانی قدرتی طور پر فلٹر ہوتا ہے جب دریا کا پانی جو کہ گدلے رنگ کا ہوتا ہے جھیل میں آتا ہے تو ایک پیالے میں پانی کو ٹھہرنے کا موقع ملتا ہے جب وہ ٹھہرتا ہے تو اس کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے یعنی اس میں بہت س پارٹیکلز نیچے بیٹھ جاتے ہیں ۔وہ نیلا پانی ہم پمپ کرتے ہیں اور تھوڑی سی ٹریٹ منٹ کے بعد کہتے ہیں کہ وہ حفظانِ صحت کے مطابق ہے جو کہ نہیں ہوتا ہے مگر آپ گدلے پانی کی نسبت صاف پانی پی رہے ہوتے ہیں اس لئے کہ پانی کے منبع اور استعمال کنندہ کے درمیان ایک آب گاہ کا فاصلہ ہے جو آپ کو پانی کی صحت مندی کی ضمانت دیتی ہے۔عقلمندی تو یہ ہے کہ ان چیزوں پر کچھ وسائل مختص کئے جاتے ہیں جو کہ عاقبت نا اندیشی کے باعث اور کچھ ہماری نااہلی کے باعث نہیں کئے گئے ہیں۔
یہاں ذمّہ داری کسی کی نہیں حقوق سب کے ہیں۔قانون بہت ہیں مگر ان کا اطلاق کہیں نہیں ہے اور بعض قوانین ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں ایک کہہ رہا ہے کہ پانی نکالو دوسرا کہہ رہا ہے پانی نہیں نکالو! ان آب گاہوں میں کاربن جذب کرنے کی بہترین صلاحیت ہوتی ہے یعنی یہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کرتی ہیں۔ان کے اندر مختلف پودے اگ رہے ہوتے ہیں جو کاربن جذب کرتے ہیں ۔اگر وہ پودے وہاں موجود نہ ہوں تو پانی کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہوگا جو کاربونک ایسڈ بنادے گا اور پانی تیزابی ہوجائے گالیکن وہ جیسے حل ہوتا ہے تو زیرِ آب موجود پودے اس کاربن کو جذب کر کے نشاستے کی شکل میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرف صحیح توجہ دی جائے ۔50فیصد ترقی یافتہ اقوام میں ایسا ہوا کہ آب گاہیں ختم ہونے لگیں اس کے بعد وہاں کے نیشنل گارڈز کو یہ حکم ملا کہ تمام پانی کے ذخائر کی حفاظت کی ذمّہ داری ان کی ہے۔ان کی دور رس نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ تیسری جنگ ِعظیم یا آگے اگر جنگ ہوئی تو وسائل پر ہوگی اور وسائل میں سب سے پہلے جو وسیلہ کم ہورہا ہے وہ پانی ہے۔وہ اپنے وسائل کے بارے میں اس قدر حسّاس ہیں اور ایک ہم ہیں کہ جب ہمیں قدرت نے ان چیزوں سے نوازا ہوا ہے تو ہمیں کوئی فکر نہیں۔اس انتظار میں کہ کوئی آئے تو کردے ورنہ بہت ہے پانی ہمارے پاس ہمیں کیا ضرورت ہے ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں