جب سے گلوبل وارمنگ ( اردو میں عالمی حدت میں اضافہ) کا سلسلہ شروع ہوا ہے نہ صرف گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ گرمیاں ہر سال اپنا دورانیہ بھی بڑھاتی جا رہی ہیں۔جیسا کہ نومبر کا دوسرا عشرہ بھی اپنے خاتمے کی جانب پیش قدمی کرتا چلا جا رہا ہے مگر ان دنوں جس شدت کی سردی ہوا کرتی تھی اب بالکل نا ہونے کے برابر ہے کیونکہ اب موسم نے بدلنا شروع کیا۔ دن چھوٹے اور راتیں طویل ہوتی جارہی ہیں، اس موسم میں سارے پرانے دردجاگ جاتے ہیں۔ شایدجب ہی سرد موسم اداسیوں سے منسوب ہے۔
موسم کی گرمی سے جہاں ساری دنیا متاثر ہوتی دکھائی دے رہی ہے تو اسی طرح اس گرمی کا بھرپور اثر دنیا کی سیاست میں بھی بہت واضح نظر آرہا ہے۔ شائد یہ گرمی دنیا جہاں کے سیاستدانوں کے دماغوں کو خراب کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ موسم بدل رہے ہیں‘ گرمیاں جا رہی ہیں جاڑا آرہا ہے مگر دنیا کے حالات ان موسموں سے قطعہ نظر مسلسل خراب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دنیا میں اسلحہ کا ایسا بے دریغ استعمال تاریخ میں اگر ہوا بھی ہوگا تو وہ آگ اور بارود کے سوا تھا، جب تیر تلوار نیزے جیسے ہتھیار استعمال ہوتے تھے۔
اب آہستہ آہستہ سیاست میں نیا موڑ لانے کی کوشش ہوتی دکھائی دے رہی ہے ، میاں صاحب کے حواری ابھی تک اعلیٰ عدلیہ کے کردار کو مشکوک قرار دیتے نظر آرہے تھے مگر اب تو میاں صاحب خود بھی کھلے لفظوں میں انصاف کے دوہرے میعار کی بات کر رہے ہیں۔ ایک شعر ہے کہ
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
میاں صاحب اور ان کے اہل خانہ اس شعر کی نفی کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ انہیں اپنے سوا کوئی دیکھائی نہیں دے رہا ۔ وہ پاکستان کو ایک مملکت سمجھنے کی بجائے جاتی امراء جیسی کوئی اپنی جائیداد سمجھ رہے ہیں گوکہ ان کی جانب سے ابتک کئے جانے والے تمام اقدامات پر نظر دوڑائیں توواضح طور پر دکھائی دے گا کہ جیسے انہیں ان کی نجی ملکیت سے دستبردار کیا جارہا ہے اور بشمول وزیر اعظم سب کچھ وہ خود ہی ہیں اور ان کے حکم کے بغیر انہیں عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے ۔
دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میاں صاحب کہہ رہے ہوں کہ یہ وہی پاکستان ہے جس کا میں تین بار وزیر اعظم رہ چکا ہوں مگر یہ بھول جاتے ہیں بلکہ ان کے حواری یاد ہی نہیں آنے دیتے کہ تینوں بار آپ کو بے عزتی کے ساتھ بلکہ گھسیٹ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اتارا گیا ہے۔ سماجی میڈیا نے ملک کی معززترین شخصیت کو کیا بنا دیا میں لکھنے سے قاصر ہوں۔
اس سے ایک بات تو میاں صاحب اور دیگر سیاستدانوں کو سمجھ آجانی چاہئے کہ پاکستان میں انصاف کا دوہرا معیار رائج ہے ۔ مگر اس میعار کی باتیں تو عام لوگوں کیلئے ہوتی تو وہ کرتے بھلے لگتے ہیں ۔ میاں صاحب آپ جیسے لوگو ں کو تو قدرت نے ان عدالتوں کو قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ذمہ داری دی اوراس ایک طرفہ انصاف کے نظام کو بدلنے کا موقع دیا مگر آپ نہیں بدل سکے ۔ آج آپ کو سمجھ آگئی کہ پاکستان میں قانون کا دوہرا میعار ہے اور کیسا میعار ہے۔ یہ بااثر لوگوں کیلئے کسی اور طرح انصاف کرتا ہے اور بے اثر لوگوں کیلئے کسی اور طرح کام کرتا ہے اور نااہلی کے بعد تو میاں صاحب بھی بے اثر لوگوں کی فہرست میں رقم ہوچکے ہیں۔
لگ یہ رہا ہے کہ موسم کی یہ تبدیلی دنیا کے سیاسی افق پر کچھ نئے چاند چڑھانے جا رہی ہے ۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے بھی کرپشن کے خاتمے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا شروع کردئیے ہیں جوکہ دونوں ملکوں کے بدعنوان طبقے کیلئے کسی اچھنبے سے کم نہیں ۔ آج تک کیا کچھ کرتے رہے ، خود ہی چور اور خود ہی سپاہی بنے پھرتے رہے ۔ یہ کیسا طبقہ ہے کہ مراعت یافتہ تو ہوتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ بدعنوانی میں بھی سر فہرست ہونے کی تگ و دو میں مگن رہتے ہیں۔
یہ لوگ معصوم عوام کو انتخابات کی مہم کی طرح سچ جھوٹ کا راگ الاپ کر اپنی مظلومیت کا رونا روکر ہمدردی سمیٹنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ۔ہماری عوام کو اب تو سمجھ آجانی چاہئے کہ جیلوں سے ہیرو نہیں مجرم نکلتے ہیں ان پر پھولوں کی پتیاں نہیں ڈالی جاتیں ۔پاکستان میں سیاسی تبدیلی کی ذمہ داری خان صاحب نے اٹھائی تھی مگر اب تبدیلی کی ذمہ داری کا چرچا پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ محترم سید مصطفی کمال صاحب کر رہے ہیں ، کچھ لکھنے والوں نے انہیں عوام کی امنگوں کی آخری امید قرار دے دیا ہے۔ یعنی تبدیلی لانے والے تبدیل ہوگئے ہیں ، مانو کے موسم تبدیل ہورہا ہے۔ سرد ہواؤں کا موسم شروع ہوچکا ہے مگر اپنے مزاجوں میں جمی سرد مہری کو پگھلانے کا وقت ہے ۔