آج 15دسمبر کا دن پاکستان کے سیاسی مستقبل کاعکاس ہے
مگر افسوس، اِس مستقبل کا تعلق اٹھارہ کروڑ عوام سے نہیں۔ پاکستانی تاریخ کے دیگر اہم واقعات کے مانند اس بار بھی عوام غیرمتعلقہ ہیں، چاہے وہ عمران خان کے ناٹ آؤٹ ہونے پر جشن مناتے پی ٹی آئی کے حامی ہوں یا نیب کی اپیل مسترد ہونے کی خوشی میں مٹھائی بانٹتے ن لیگ کے سپورٹر۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ آج کا مقابلہ برابر رہا۔شاید برابر موزوں لفظ نہیں۔ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ سب کچھ ”توقع “ اور ”تقاضوں“ کے مطابق ہوا۔یہ توقع اور تقاضے کیا تھے؟ اس سوال کو کسی اور وقت کے لیے اٹھائے رکھتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ واقعات ترتیب وار رونما ہوئے، اور ایک ایسے نتیجے پر منتج ہوئے، جس پر اُس مستقبل کی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے، جس کی جانب ماہرین عرصے سے اشارہ کر رہے ہیں۔کیا ایاز صادق کا اشارہ بھی اسی جانب تھا؟۔
عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی راہ یا اُن کے نام زد کردہ شخص کے شیروانی زیب تن کرنے کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔ان کے اتحادیوں میں جماعت اسلامی، ق لیگ، اینٹی پیپلزپارٹی قوتوں او رآزاد امیدواروں کا اکٹھ نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا کردار اہم ہوگا۔ فاروق ستار اور مصظفےٰ کمال کو ملانے کی کوششوں کے پیچھے یہی فکر تھی، مگرکمال کے غیرضروری اعتماد اور ایم کیو ایم کے ووٹرز کے ردعمل نے کیس بگاڑ دیا۔ ہاں، فاروق ستار کو لیڈر بنے کا ضرور موقع مل گیا۔
عمران خان کی قوت میں اضافہ متوقع ہے۔ خیبر پختون خوا ہ پھر پی ٹی آئی کے پاس جاسکتا ہے۔ سندھ پی پی پی سے چھیننا دشوار ہے، مگر چھوٹے بڑے دھڑے اکٹھے ہوجائیں، تو ادھرپیپلزپارٹی کو نکیل ضرور ڈال سکتے ہیں۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے، پی پی پی اپنے مفادات کے لیے پی ٹی آئی کے نزدیک آجائے۔ یہی سیاست کا حسن ہے صاحب۔ طاہر القادری صاحب تو کہہ چکے ہیں: ”عمران اور زرداری کو دائیں بائیں بٹھا کر دکھاؤں گا!“۔
بلوچستان میں جیتنے والے سردار، غیرسردارسب اُسی کا ساتھ دیں گے،جو وفاق میں طاقت کا مرکز ٹھہرے گا۔اچھا، اصل مقابلہ اب بھی پنجاب میں ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی سیٹوں میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔ البتہ حدیبیہ کیس بند ہونا اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ شریف کا مستقبل فی الحال محفوظ ہے۔ اگر2018 کے بعد وہ پنجاب کے خادم اعلیٰ نہ بھی بن سکے،ق لیگ اور پی ٹی آئی نے حکومت بنا لی، تب بھی وہ اتنے پرقوت ضرور ہوں گے کہ خان کے لیے مستقل خطرہ بنے رہیں(یہ مستقل خطرہ بھی جمہوریت ہی کا حسن ہے صاحب!)۔
ایک کمزور پارلیمنٹ وجود میں آنے کو ہے ۔ ایسی پارلیمنٹ ، جس پر ہمہ وقت خطرے کی تلوار لٹکتی رہے۔ممکن ہے، جو آج معطون ہیں، کل محبوب ٹھہریں۔ شہباز شریف کا کردار2018الیکشن کے بعد چند ڈرامائی تبدیلیوں سے گزر سکتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا میاں صاحب مائنس ہوگئے؟
اس کا جواب قطعیت کے ساتھ دینا ممکن نہیں۔میاں صاحب کو سسٹم سے باہر کرنے والے تجزیہ کار وں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی سیاست میں کسی بھی وقت، کسی بھی ضرورت کے تحت کوئی بھی واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔(برائے مہربانی یاد رکھیں!)۔
مائنس کو پلس ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ مگر یہ واقعہ تب ہی رونما ہوتا ہے، جب معروضی حالات سازگار ہوں اور مائنس ہونے والا فیصلہ سازوں کی ضرورت بن جائے۔
میاں صاحب سے معذرت۔ مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ۔ ابھی عمران خان کے لیے راستہ ہموار ہے۔ اکلوتی رکاوٹ الیکشن ہے۔ اگر اُنھوں نے اگلے الیکشن میں ووٹرز کو قائل کر لیا، تووہ واقعہ رونما ہوجائے گا، جس کی خواہش لیے عمران خان اُس دھرنے پر بیٹھے تھے، جو چار ماہ تک جاری رہنے والا تھا۔
15 دسمبر کا دن پاکستان کے سیاسی مستقبل کی عکاسی کرتا ہے۔ البتہ میاں صاحب کے مائنس ہونے سے متعلق یہ ابھی خاموش ہے۔
دھرنے کا راستہ تواُن کے پاس بھی موجود ہے!۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں