وادی ڑاسپور چترال شہر سے 120کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ وادی چھ دیہات جسے’ عولات’ بھی کہا جاتا ہے پر مشتمل ہیں ۔ ڑاسپور کے حدود مستوج سے آدھاکلومیٹر پر واقع اونشوت سے شروع ہوکر شندور کے دوسری جانب غالباً لنگر میں جاکر ضلع غذر اور دوسری جانب بشقار سوات سے ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے میں جنگجو اور بیرونی حملہ آوور ڑاسپور سے ہوکر گزرتے تھے ۔ خصوصا 1895ء میں فروری اور مارچ کے مہینے میں جب ریاست چترال خانہ جنگی کا شکار تھی تو انگریز افسروں نے کمک لے کر قلعہ چترال میں محصور کرنیل رابرٹ سن اور دوسرے اہلکاروں کو بچانے کے لئے گلگت ، غذر سے ہوکر انتہائی سخت سردی اور برف میں شندور کے درے کو عبور کرتے ہوئے ڑاسپور میں وارد ہوئے تھے اوریہاں انگریزوں کے خلاف سخت مزاحمت بھی ہوئی تھیں۔ اس سفر اور جنگ کی کہانی انگریز آفیسروں کے سفر ناموں بالخصوص رابرٹ سن کی کتاب’’محاصرہ چترال کی کہانی‘‘میں ملتی ہے ۔
ڑاسپور کے عوام کی بہادری کے قصے چترال کی لوک روایات میں سنہرے حروف میں لکھے گئے ہیں ۔ سپاہ گیری یہاں کے لوگوں کا محبوب مشغلہ رہاہے اور دور جدید میں بھی فوج میں اس وادی سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ ان میں سے بیشتر افراد اچھے عہدوں پر متمکن رہے ہیں ۔
کہوار زبان کے مایہ ناز گیت ‘نان غیروم’ میں ڑاسپور کے لوگوں کی بہادری کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ
ڑاسپریکان سو بول بوغے تان نانو ژان نان غیروم
لوٹ موشیا نام نیسیر زووالو ژاو نان غیروم
)اس شعر میں ایک ماں اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتی ہیں کہ اگر جنگ کے لئے جانا پڑے تو وادیِ لاسپور کے باسیوں کے ہمراہ جانا تاکہ فتح آپ کی مقدر بنے۔ پسِ مصرعے میں شاعرہ بیٹے کو مخاطب کرکے ہدایت دیتی ہیں کہ لاسپور کے بہادر سپوتوں کے ساتھ جنگ پر جاؤ تاکہ تم اپنی مہارت، شجاعت ، ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کر کے نام اور مقام پا سکو۔(
مستوج سے 45منٹ کی مسافت پر واقع ہرچین واد ی ڑاسپور کا مرکز ہے ۔ صحت ، تعلیم سمیت بیشترادارے یہاں موجود ہے ۔
اس لمبی تمہید کے بعد اصل موضوع کی جانب لوٹ آتے ہیں ۔گزشتہ دنوں خاکسار کو گلگت بلتستان سے واپس آتے ہوئے ڑاسپور ہرچین میں کسی کام کے سلسلے میں اترنا پڑا۔راستے میں چلتے ہوئے ایک سائن بورڈ پر نظر پڑی جس میں لکھا تھا’ہیری ٹیچ میوزیم ڑاسپور‘۔ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ادھر ادھر سے معلومات لے کر میوزیم کو ڈھونڈ ھ نکالا جو کہ بابائے ڑاسپور گل والی خان یفتالی مرحوم کے بڑے فرزند امیر اللہ خان یفتالی کے صحن میں تعمیر کی گئی ہے ۔ اس میوزیم کی تعمیر کے لئے مالی معاونت آغاخان رورل سپورٹ پروگرام نے کی ہے ،اور امیر اللہ خان یفتالی اس میوزیم کے مالک اور نگران ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ کہ یہ ارض ِبدخشاںوشمالی علاقہ جات میں تعمیر ہونے والا اپنی نوعیت کا تیسرا میوزیم ہے ، جو اے کے ڈی این کے مالی معاونت سے تعمیر کی گئی ہے ، اسی ڈیزائن کا ایک میوزیم تاجکستان میں ، دوسرا ہنزہ میں اور تیسرا یہ ہیری ٹیچ میوزیم ڑاسپور میں ہے ۔میوزیم کے اندر سینکڑوں بلکہ ہزاروں برس پرانی نوادرات آویزاں کی گئی ہیں ۔
اس لحاظ سے دیکھاجائے تو ہیری ٹیچ میوزیم ڑاسپور چترال کی تاریخی ورثے کے امین ہے ۔ امیر اللہ خان یفتالی نے بتایا کہ’ان نواردات کو اکھٹا کرنے میں مجھے تیس برس لگے تب جاکے یہ میوزیم وجود میں آیا ‘۔ڑاسپور ہیری ٹیچ میوزیم نہ صرف علاقے کی ثقافت ، تاریخ اور معاشرت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اس میوزیم کی وجہ سے علاقے میں سیاحت کے شعبے کو فروغ ملنے کی بھی امید ہے ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں