ہر سال یکم اور دو فروری کو چترال کی انتہائی خوبصورت اور رومانوی وادی لٹکوہ کے بعض مقامات پر پھتک کے نام سے ایک تہوار منایا جاتا ہے ۔جسے یہاں کے مقامی لوگ ’پیرو پھتک‘ یعنی پیر کا پھتک بھی کہتے ہیں۔ لوک روایات کے مطابق گیارہویں صدی عیسوی کے نامور فلسفی، فارسی زبان کے شاعر و ادیب اور بدخشان و یمگان کے چیف اسماعیلی داعی ناصر خسرو اسماعیلی دعوت کے سلسلے میں یہاں آئے اور آج جس مقام پر زیات موجود ہے اس کے سامنے پہاڑی پر چلہ کاٹا تھا ،ان روایات کے مطابق21دسمبر سے 30 جنوری یعنی چالیس دنوں تک ناصر خسرو نے ایک پہاڑی غار میں بیٹھ کر چلہ کشی کی اور یہاں سے پہاڑی میں غوطہ لگا کر بدخشاں چلے گئے تھے ۔ چونکہ ان روایات میں حقیقت کا عنصر کم اور مافوق البشر تصورات زیادہ شامل ہے اس لئے ان پر اعتماد کرنا دور جدید کے محققین کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔
وادی لٹکوہ کا پرانا نام انجگان تھا بہت ممکن ہے دسویں یا گیارہویں صدی میں یہ علاقہ بھی بدخشان و یمگان کا حصہ رہا ہوں اور ناصر خسرو اسماعیلی دعوت کے سلسلے میں یہاں آئے ہو۔ تاہم ان کی آمد کے حوالے سے ہمارے پاس ماسوائے سینہ بہ سینہ چلنے والی روایات کے اور کوئی مستند تصانیف موجود نہیں۔ جبکہ ان کی انتہائی پرخطر پہاڑی جہاں بیٹھنے کے لئے ایک فٹ بھی جگہ نہیں، پر چلہ کشی اور دوسرے معجزات کا سن کر ان کے یہاں آمد مزید مشکوک ہوجاتی ہے ۔
ناصر خسرو کا انجگان آنا یا نہ آنا ہمارا موضوع بحث نہیں بلکہ آج ہم علاقے میں منانے والی جشن پھتک پر گفتگو کررہے ہیں۔جشن سے دو تین دن قبل علاقے کے قاضی یا پیر صاحبان گھر گھر جاکر جشن کے حوالے سے خبر دیتے ہیں اور اس کے لئے نذرانہ جمع کرتے ہیں جنہیں گرم چشمہ کے مقام پر واقع زیارت میں لے آتے ہیں اور جشن کے دنوں میں کھانا پکاکے جماعت میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔جشن سے کئی دن قبل گھروں کی مکمل صفائی کی جاتی ہے جبکہ جشن کے روز صبح سویرے گھر کا کوئی بڑا اٹھ کر گھر کو سجاتے ہیں۔ یہ سجاوٹ آٹے سے کی جاتی ہے جسے پھتک دیک یعنی پھتک دینا کہتے ہیں ۔
پھتک شاید کہوار زبان کا لفظ ’پھاتاکی‘سے نکلا ہو، ’پھاتاکی‘کسی کالے یا سرخ رنگ کے جانور کے پیشانی میں قدرتی سفیدی کو کہتے ہیں جو خوبصورتی کی علامت ہوتی ہے ، چونکہ چترال ، گلگت بلتستان ،پامیر اور ہندوکش و قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہنے والے لوگ انتہائی سردی سے بچنے کے لئے گھروں میں لکڑی جلاتے ہیں جس کی وجہ سے مکانا ت کالے رنگت اختیار کر لیتے ہیں اور اسی کالے گھر میں جب آٹے سے ڈیکوریشن کی جاتی ہے تو اس عمل کو پھتک کہا جاتا ہے ۔
وادی انجگان یا لٹکوہ میں فروری کی یکم اور دو تاریخ کو منایا جانے والا تہوار ’پیرو پھتک ‘ یا ’لوٹ پھتک‘ یعنی بڑا پھتک کہاجاتاہے جبکہ 21 مارچ کو نوروز کی تہوار کو چھوٹا پھتک کہا جاتا ہے ۔اس کے برعکس اپر چترال میں صرف 21 مارچ کو نوروز کو بطور پھتک منایا جاتا ہے جو عمل وادی انجگان / لٹکوہ میں پیرو پھتک میں کیا جاتا ہے وہی 21 مارچ کو نوروز کے موقع پر اپر چترال میں بھی کیا جاتا ہے ۔
جہاں چترال اپنی فطری حسن کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے وہیں یہاں کی ثقافت و ادب اور
تاریخی روایات وتہوار وں کی جڑیں بھی انتہائی پرانی ہے اوران روایات کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ مادیت پرستی کے زمانے میں بھی فطرت سے خود کو ہم آہنگ کرنا آج کے نسل کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔