چترال میں مارخور کا غیر قانونی شکار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسا ہی معاملہ پچھلے دنوں لٹکوہ کے علاوہ شغور میں پیش آیا جب شکاری نے مارخور پر فائر کردی تو اس کے نتیجے میں دس سالہ کشمیری آئی بیکس زخمی ہوگیا، جسے بعد میں یہاں کے مقامی لوگوں نے زندہ پکڑ لیا۔ تاہم چند روز بعد محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے بیان سامنے آیا کہ دراصل محکمہ وائلڈ لائف کے حکام نے کمیونٹی کے تعاون سے مارخور پکڑ لیا ہے، اس کے بعد مارخور کے مرنے کی اطلاع آئی۔
سوشل میڈیا میں وائر ل ہونے والی ویڈیو کے مطابق علاقے کے لوگوں کا ایک ہجوم گھیر کر مارخور کر پکڑ لیتے ہیں اور انہیں انتہائی بے دردی سے گرا کر رسیوں سے باندھتے ہوئے گھسیٹ کر ٹرک میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جو کہ محکمہ وائلڈ لائف کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ محکمے کے اہلکاروں کے پاس ”ٹیرنکولائزر گن“ ہوتے ہیں جن کے ذریعے جانور کو بے ہو ش کرکے بحفاظت پکڑ لیتے ہیں لیکن یہاں زخمی مارخور کو گھیر نے کے بعد پکڑ کر رسیوں سے باندھا جاتا ہے۔ لیکن اس جرم پر بھی کسی قسم کی سرزنش نہیں کی گئی۔
جب سوشل میڈیا پر اس معاملے کو ہوا دی گئی تو کئی دن بعد محکمہ وائلڈ لائف نے بیان دیا کہ علاقے کے نگہبانوں نے دو افراد کو مارخور پر فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا اور ان کا پیچھا کیا جس کی وجہ سے وہ مارخور کو زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ پھر چند روز بعد اسلم بیگ نامی ایک لڑکے کو اس فائرنگ میں ملوث قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا اور دوسرے ملزم کی تلاش کا عندیہ دیاگیا، اب خبر آئی ہے کہ اسلم بیگ کو بھی ضمانت پر رہاکیا گیا ہے۔
باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسلم بیگ شغور سے تعلق رکھنے والے ایک بااثر خاندان کا گھریلو ملازم ہے۔ جس وقت اسلم بیگ پر وائلڈ لائف نے مارخور پر حملے کے الزام میں پرچہ کاٹا تھا اس وقت یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کے ساتھی ملزم کی تلاش جاری ہے ابھی تک وہ ملزم کیوں گرفتار نہ ہوسکیں۔؟ اور اسلم بیگ کی گرفتاری کے دو دن بعد اسی بااثر خاندان نے سوشل میڈیا پر ان کے حق میں تحریک چلائی جو اس امر کا غماز ہے کہ مذکورہ واقعہ ملی بھگت تھی نہ کہ اسلم بیگ کی ذاتی کاوش۔
لوئر چترال کے عوام نے گزشتہ کئی برسوں سے شکار پر پابندی عاید کرتے ہوئے کنزرویشن کیا ہوا ہے علاقے میں کسی بھی قسم کا شکار ممنوع ہے۔ تاہم ہر سال چترال میں دس سال سے زائد عمر کے حامل تین مارخوروں کو شکار کرنے کی اجازت ہے جس کے لئے باقاعدہ اخبار میں اشتہار دیا جاتا ہے۔ غیر ملکی شکاریوں کے لئے فی شکار ایک لاکھ امریکی ڈالر کی لائسنس جاری ہوتی ہے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو فی شکار ایک کروڑ تیس لاکھ کے قریب پاکستان روپے بنتی ہے۔ بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ اس میں بھی ‘مونو پولی’ پائی جاتی ہے۔ چترال گول نیشنل پارک بھی گزشتہ کئی برسوں سے کنزویشن ہے مگروہاں ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت نہیں بلکہ محکمہ وائلڈ لائف چترال گول نیشنل پارک میں شکار کے لئے لائسنس ہی جاری نہیں کرتے۔بلکہ تینوں لائسنس توشی، شاشا، اور گہریت کے لئے جاری کئے جارہے ہیں۔جس وقت چترال گول میں کنزویشن کیا جارہا تھا تو اس وقت یہاں محض دو سو اسی مارخور موجود تھے جبکہ اب یہ تعداد تین ہزار تک پہنچ چکی ہے جو کہ یہاں کے عوام کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
چترال گول کنزرویشن کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے مطابق اس علاقے میں صرف 450مارخوروں کی ‘گریزنگ کپیسیٹی’ پائی جاتی ہے جبکہ فی الوقت اسی کنزوریشن میں 2800 مارخور رہائش پزیر ہے۔ یہی نہیں ان میں سے292 مارخور ایسے ہیں جو اپنی طبعی عمر مکمل کرچکے ہیں اور کسی بھی وقت طبی موت یا بڑھاپے کی وجہ سے کتوں، دوسرے جنگلی جانوروں کا شکار ہونے یا بینائی کی حس سے محروم ہونے کی وجہ سے کہیں گر کر مرنے والے ہیں۔ یوں قوم کا تین ارب روپے اس وقت تباہی کے دھانے پر ہیں۔لیکن نہ تو محکمہ وائلڈ لائف کو اس کا احساس ہے اور نہ ہی کنزرویشن کے اعلی حکام کو۔ اس کی وجہ چترال کا بعض مراعات یافتہ طبقہ ہے جن کا کنزرویشن کے اعلی ٰحکام کے ساتھ ذاتی مراسم ہے او ر چونکہ چترال گول نیشنل پارک کے احاطے میں شکار ہونے کی صورت میں کنزرویشن کے حکام کو بھی کوئی خاص ذاتی فائدہ ہونے کے چانسز نہیں اس لئے وہ بھی مراعات یافتہ طبقے کے علاقوں کے لئے ہی لائسنس جاری کرتے ہیں۔اب وقت کا تقاضہ ہے کہ چترال گول کنزرویشن میں بھی ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت دی جائے تاکہ عوام کی محنت رنگ لائے ۔