پاکستان میں جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ اوربڑھتی ماحولیاتی آلودگی کی نتیجے میں گزشتہ چند ایک سالوں سے ہیٹ ویوز میں شدت آئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہرجگہ درجۂ حرارت بلند ہے اور گرمی اپنے پورے جوبن پر ہے۔ نواز لیگ کی حکومت کے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی اپنی جگہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اب اور بھی گھمبیر صورتحال اختیار کر چکا ہے، اور نتیجتاً رمضان میں بھی عوام کو سکون کی سانس میسر نہیں۔ بلکہ سونے پر سہاگہ اب تو کراچی کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں سے بھی پانی غائب ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں اور لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پانی کے ٹینکرز منگوانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں جہاں پہلے ہی غریب آدمی کے لئے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنا محال تھا اب وہ پانی بھی خریدنے پر مجبور ہو گیا ہے شاید جمہوریت کا یہی حسن ہے جس سے آج کل ہم سب مستفید ہو رہے ہیں۔
تشویش طلب بات یہ ہے کہ متعدد مستند اداروں کی تحقیقات کے مطابق 2025ء تک پاکستان سے پانی بالکل ختم ہو جائے گا جو کہ نہ صرف مسئلے کی سنجیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر فی الفور اس مسئلے کے حل کی جانب بھی توجہ مبذول کراتا ہے۔ تاہم حکومتی ایوانوں نےنہ سہی مگر کم از کم سوشل میڈیا صارفین نے اس خطرے کی گھنٹی کو کافی سنجیدہ لیا ہے اور اسی لئے اس سے متعلق ٹاپ ٹرینڈز بھی سوشل میڈیا کے زینت بن رہے ہیں۔
ماہرین عرصہ دراز سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں مگر نہ تو سیاستدانوں نے اس پر قطعاً کوئی توجہ دی اور نہ ہماری حکومتوں نے اس سے متعلق کوئی اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے ملک کی بقاء آج داؤ پر لگی ہے۔ کالا باغ ڈیم وہ واحد ڈیم ہے جو نہ صرف پانچ سال کے کم عرصے میں ہمیں سستی ترین بجلی فراہم کر سکتا ہے بلکہ اس سے متعدد معاشی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ مگر بدقسمتی سے اس ڈیم کو بھارتی آشیرباد یافتہ قوتوں کی جانب سے ماضی سے ہی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ یہ پاکستان کے عین مفاد میں ہے اور اس کی لاگت بھی نسبتاً کم ہے۔ کیونکہ کالا باغ ایک قدرتی پہاڑی سلسلہ ہے جس کے وسط سے دریائے سندھ گزرتا ہے اور اس کے فوراً بعد میدانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کالا باغ ڈیم ایک قدرتی ڈیم ہے جس کے دونوں جانب پہاڑ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دیوار بنا کر ڈیم بنایا جا سکتا ہے۔ اور پاکستان کے قلب میں ہونے کی وجہ سے یہاں تک افرادی قوت اور بھاری مشینری بغیر کسی دقت کے پہنچ سکتے ہیں۔ اور اس ڈیم سے آٹھ لاکھ ایکڑ زرعی اراضی سیراب ہوگی اور خوراک کی مد میں 100 ارب روپے فی سال سے زیادہ متوقع ہیں۔ صرف کالا باغ کے مقام پر ٹربائنز لگا کر اس سے 6000 میگا واٹ تک بجلی پیدا کی جاستی ہے۔ اگر غازی بروتھا کی طرز پر نہریں نکال کر اور مقامات پر بھی بجلی پیدا کی جائے تو اس کی پیداواری صلاحیت ہزاروں میگا واٹ تک مزید بڑ ھائی جا سکتی ہے جس کی قیمت 2 روپے فی یونٹ ہوگی۔
کالا باغ ڈیم سے ہر صوبے کو فائدہ پہنچے گا۔ مثلاً صوبہ سندھ میں بدین، ٹھٹھ اور دیگر اضلاع میں تقریباً بیس لاکھ ایکڑ رقبہ مزید زیر کاشت آئے گا۔ جبکہ بلوچستان کو کالا باغ ڈیم سے 15لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکتا ہے جس سے مشرقی بلوچستان کا 7 لاکھ ایکڑ رقبہ مزید سیراب ہو سکے گا اور شاید بلوچستان میں ہمیں پہلی بار لہلہاتی فصلیں بھی دیکھنے کو ملیں۔ علاوہ ازیں، اس ڈیم سے صوبہ خیبر پختونخواہ کی 8 لاکھ ایکڑ زمین کو زیر کاشت لایا جا سکے گا۔
مزید یہ کہ اس ڈیم سے پاکستان کو سالانہ 300 ارب روپے کی بچت ہو گی، جو پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے خاتمے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے علاوہ اس کے روپے کی قدر کو مستحکم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ علاوہ ازیں، ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا موجودہ تخمینہ 9 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ یہ لاگت 2010ء( ساڑھے نو ارب ڈالر) اور 2014ء( 20 ارب ڈالر) کے سیلابوں میں ہونے والے نقصانات سے کہیں کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت مکمل طور پر برصغیر کے پانیوں پر قابض ہو چکا ہے اور محض پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر دو تین سال بعد پانی ہمارے دریاؤں میں چھوڑتا ہے وہی پانی سیلاب کی شکل اختیار کر کے ہمیں اربوں ڈالر کا نقصان پہنچاتا ہے۔
اگر پاکستان کے پاس کالا باغ ڈیم جیسے پانی کے ذخائر ہوں تو پاکستان صرف وہی پانی ذخیرہ کر کے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ مگر افسوس ہم کالا باغ ڈیم جیسے عظیم منصوبے کو بر وقت تکمیل نہ کرسکے اور اس منصوبے سے حاصل ہونے والے فوائد ہمارے لئے بتدریج ایک خواب بن کر رہ گئے کیونکہ اس ڈیم سے عوام کو بد زن کرنے کے لئے ، نیز اپنے سیاسی مفادات کو محفوظ کرنے کے لئے ہمارے نام نہاد سیاست دانوں کی جانب سے باقاعدہ کمپئینز چلائی گئیں۔ مثال کے طور پر کالا باغ ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوب جائے گا ۔ جو کہ سراسر جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ ہےکیونکہ کالا باغ ڈیم کی اونچائی915 فٹ ہے اگر یہ پورا بھر بھی جائے تب بھی نوشہرہ اس سے ڈوب نہیں سکتا کیونکہ وہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔
اب پاکستان کو کیپ ٹاؤن ( جنوبی افریقہ) جیسے علاقوں سے سبق سیکھنا ہو گا جہاں پانی بالکل ختم ہو چکا ہے اور لوگ پانی کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں۔ دنیا بھر میں تیزی سے آب و ہوا بدل رہی ہے مگر اگر نہیں بدل رہے تو ماحول کے تحفظ سے متعلق ہمارے انفرادی رویے اور ہمارے مستقبل کے ضامن ہمارے حکمران۔ اگر یوں ہی ہمارے حکمران گھوڑے بیچ کر سوتے رہے تو اگلے کچھ سالوں میں کیپ ٹاؤن جیسی صورتحال کا سامنا پاکستان کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ ہرسال پاکستان کا بے تحاشہ پانی ذخیروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے سمندر میں بہ کر ضائع ہو جاتا ہے جسے اب مزید ضائع ہونے سے روکنا ہو گا۔
اس وقت پاکستان کو متعدد چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان بھارت( 320 دن) کے مقابلے میں صرف 30 دن تک پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔ جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت مستقبل قریب میں ‘پانی’ کو پاکستان کے خلاف بطور حربی حکمت عملی کے طور پر بروئے کار لانے کا عزم رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اب تو ہر حال میں کچھ تو ہوش کے ناخن لینا پڑیں گے۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں