دہشت گردی اس آگ کا نام ہے جس کی تپش سے ہمارا ملک کئی سالوں تک بری طرح جھلستا رہا ہےاور اس آگ کی نذر ہمارے ہزاروں نہتے شہری بچے، عورتیں اور بزرگ اور سیکیورٹی اہلکار ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے جہاں بہادری سے اس آگ پر قابو پایا، وہیں پاکستان میں اس آگ کو سلگانے والوں کو بھی نشان عبرت بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور بلا تواترانہیں تختہ دار پر لٹکایا جاتا رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ راء نے بہت مستعدی سے اپنے دیگر ہم پلہ عالمی حساس اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں انسرجینسی کی ایک ہولناک بساط بچھائی جسے پاک فوج کے افسران و جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر نہ صرف الٹا بلکہ اس پراکسی وار کے تمام پر پرزے بھی رفتہ رفتہ کاٹ دئیے۔ سب سے بڑی کامیابی پاکستان کو تب موصول ہوئی جب اس نے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن کورنگے ہاتھوں بمعہ تمام ثبوتوں کے گرفتار کر کے جاسوسی کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا بلا شبہ یہ بھارت کوبہت بڑا دھچکا تھا۔
مگر تب پاکستان میں حکومت ایک ایسی جماعت کی تھی جس نے اپنا پورا دور اقتدار( پانچ سال) اپنی پانامہ کی منی لانڈرنگ اور کرپشن کو چھپانے میں صرف کر دیا۔ سرد مہری کا یہ عالم تھا کہ ان سالوں میں پاکستان بنا کسی وزیر خارجہ کے بے لگام گھوڑے کی طرح ڈگمگاتا رہا۔ کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کے کالے کرتوں پر سے پردہ ہٹانے کے لئے منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس میں اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید، تیوڑی چڑھائے سابقہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ہمراہ کرسی پر براجمان تو دکھائی دئیے مگر ان کی زبان شاید کسی نے پکے دھاگے سے سی رکھی تھی جو کھل نہ پائی اور پاکستان کے بیانیے کی مکمل ترجمانی ڈی جی آئی ایس پی آر نے تن تنہا کی۔ بعد ازاں اس وقت کی حکومت کو بہت مواقع ملے جس سے وہ دہشت گرد بھارت کو دنیا کے سامنے ننگا کر سکتے تھے مگر انہوں نے شاید اسے ضروری نہیں سمجھا اور کلبھوشن معاملے پر آنکھ بند کر کے اپنی مدت پوری کرنے میں عافیت جانی۔
اسی اثناء میں بھارت نے کلبھوشن کیس کو عالمی عدالت برائے انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیاجسے سابقہ نام نہاد جمہوری اور عوامی حکومت (نواز حکومت) نے قبول بھی کر لیا جس پر اسے عوامی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ مگر کیس کی تیاری تو درکنار کوئی وکیل تک نہیں کیا گیا اور نہ کوئی پاکستانی جج پہلی ہیئرنگ میں ہیگ بھیجا گیا۔ ایسی صورتحال میں پاک فوج کے سپہ سالار سامنے آئے اور ان کےاحکامات پر پاک فوج نے وکیل ہائر کیا اور یوں یہ کیس اللہ اللہ کر کے عالمی عدالت میں شروع ہوا۔
گزشتہ ہیئرنگ میں پاکستان کے وکیل نے بڑے مدلل انداز میں پاکستان کا مقدمہ عالمی عدالت کے سامنے پیش کیا جس کا فیصلہ طویل انتظار کے بعد کل سنایا گیا۔ فیصلہ پاکستان کے حق میں آنے کی ہی دیر تھی کہ بھارتی میڈیا کو قوی نفسیاتی جھٹکا لگا اور وہ شاک میں چلا گیا اور عالمی عدالت کے فیصلے کو بھارت کی کامیابی قرار دینے لگا۔ واضح رہے اس فیصلے میں بھارت کا صرف ایک مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے وہ ہے بھارتی دہشت گرد کو قونسلر رسائی دینے کا۔ باقی اس کے کلبھوشن کو رہا کرنے اور اس کی پاکستانی ملٹری کورٹ کی سزا کالعدم قرار دینے کے مطالبے کو یکسر خارج کر دیا گیا ہے۔ حتٰی کہ حسین مبارک پٹیل عرف کلبھوشن یادیو کو تاجر بنا کر ایران میں کاروبار کرنے اور وہا ں سے اغوا کئے جانے کے تمام بھارتی ٹوپی ڈرامے عالمی عدالت نے مسترد کر دئیے ہیں اور اس کا حسین مبارک پٹیل والا پاسپورٹ ہی عدالت نے اصلی گردانا ہے ۔ یہاں یہ بات بہت غور طلب ہے کہ عالمی عدالت کی اس اقدام سے کلبھوشن کے اقبالی بیان کی مکمل توثیق ہو گئی ہے جسے کلبھوشن نے رضاکارانہ طور پر خود ریکارڈ کرایا تھا اور جسے میڈیا پر بارہا بار نشر کیا جا چکا ہے۔
اس پورے فیصلے کو آسان زبان میں سمجھنے کے لئے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
ا۔ کلبھوشن کو رہا کرنے کی بھارتی استدعا عالمی عدالت نے مسترد کر دی ہے
2۔ وہ پاکستان میں ہی رہے گا اور اس پر پاکستان کا ہی قانون لاگو ہو گا
3۔ کلبھوشن کو ملٹری کورٹ سے ملنے والی سزائے موت کو عالمی عدالت نے کالعدم نہیں قرار دیا اور نہ پاکستانی ملٹری کورٹ کے فئیر ٹرائل پر کوئی انگلی اٹھائی ہے۔ واضح رہے یہ دونوں بھارتی مطالبے تھے اور بھارت کو اس میں شکست ہوئی ہے
4۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن کی تقدیر کا فیصلہ پاکستان کے عدالتی نظام اور قانون پر چھوڑا ہے اور پاکستانی جوڈیشل نظام کے تحت ہی اس کا ریویو یعنی نظر ثانی کی جائے گی۔ عرف عام میں جسے اپیل کرنا کہتے ہیں۔
5۔ عالمی عدالت نے کلبھوشن کی سزائے موت کے ملڑی کورٹ کے فیصلے میں کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا ہے جو آرمی ایکٹ کے تحت پہلے بھی اس کے پاس تھا۔ لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں کی عالمی عدالت نے۔
عالمی عدالت نے پاکستان کو کسی بھی بات کے لئے پابند نہیں کیا کہ وہ یہ کرے اور یہ نہ کرے۔ پتہ نہیں کیوں سماجی میڈیا پر ابہام پھیلایا جارہا ہے حالانکہ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے بلکہ سیدھی سی بات ہے جب عالمی عدالت نے اسے کلبھوشن یادیو اور تاجر ماننے سے برملا انکار کردیا ہے( کیونکہ بھارت اس کے واضح ثبوت عدالت میں پیش کرنے سے قاصر رہا ہے) تو دوسری طرف اس سے پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوئی ہے کہ یہ تاجر نہیں بلکہ بھارتی نیوی کا افسر ہے اور کلبھوشن بن کر نہیں بلکہ حسین مبارک بن کر دہشت گردی اور جاسوسی کرنے کرنے پاکستان آیاتھا۔
اس فیصلے سے پاکستان کی نامور سیاسی جماعتوں کے ٹویٹر اکاؤنٹس پر سانپ سونگھا تو ہوا ہی ہے مگر کچھ صحافی حضرات بھی اس فیصلے سے نالاں معلوم ہوتے اور اسے اپنے مرضی کے معنی پہنا کر ففٹی ففٹی قرار دے رہے ہیں ان حضرات کے لئے صرف اتنا کہوں گی عالمی عدالت کے اس فیصلے کے بعد زمینی حقائق میں کیا بدلاؤ آیا؟ کلبھوشن کل بھی پاکستان کے پاس تھا اور آج بھی ہے ۔ کل بھی اس کا ٹرائل پاکستانی عدالتی نظام کے تحت ہو رہا تھا اور آج بھی ویسا ہی ہو گا تو پھراس سے بھارت کی جیت کیسے ہوئی۔۔۔؟؟؟؟؟اور بھارتی میڈیا کس خوش فہمی میں خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟