سنہ 2018انتہائی اہمیت کا سال ہے ،اس سال جولائی کے آخری ہفتے میں پاکستانی عوام پانچ سال کے لئے قومی اور صوبائی سطح پر اپنے نمائندے منتخب کریں گے اور اب پاکستان کے عوام اتنے با شعور ہو چکے ہیں کہ ووٹ زبانی کلامی تقریروں کی بجائے ماضی کی کار کردگی اور انتخابی منشور کو مد نظر رکھ کر ہی دیں گے۔ عوام 2013 کے الیکشن سے قبل سیاسی جماعتوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے منشور کا جائزہ لیں گے کہ کن وعدوں پر عمل در آمد کیاگیا ہے، سماجی شعبہ میں بہتری کے لئے مقرر کئے گئے کن اہداف پر عمل در آمد ہو سکا اور کن پر نہ ہوسکا۔عوام جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے یہ مقام صرف اور صرف تعلیی میدان میں ترقی کر کے ہی بنایا ہے لہذاٰ الیکشن 2018کے انتخابات میں ووٹ صرف اسی کا ہوگا جس کے انتخابی منشور میں تعلیم اور با لخصوص اعلیٰ تعلیم کو ترجیح دی گئی ہے ۔
پاکستان کے ماہرین تعلیم نے جون 2018میں 18 نکاتی ایجنڈا پیش کیا اوریہ ایجنڈا وائس چانسلرز، یونیورسٹیز کے منتخب نمائندگان، تجزیہ کار وں،کالم نگاروں اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کی با ہمی مشاورت سے ترتیب دیا گیا تھا۔ 18 نکاتی ایجنڈا کے مطابق یونیورسٹی کے وائس چانسلرز کی تعیناتی میرٹ اور شفافیت پر مبنی ہونا چاہئے،اعلیٰ تعلیمی شعبہ کے حوالے سے 18ویں آئینی ترمیم اور مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کے فیصلوں پر من و عن عمل در آمد ہونا چاہئے۔
تعلیمی بجٹ مجموعی بجٹ کا 4 فیصد جبکہ ٹوٹل تعلیمی بجٹ کا 25 فیصد اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص کیا جانا چاہئے۔ 18نکاتی ایجنڈے میں ٹیچرز کی ٹریننگ اور تحقیق کے فروغ پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ایجنڈے کے مطابق جامعات کی خودمختاری اور علمی و اکادمی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ جامعات کی سینڈیکیٹ کی تشکیل میں جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی ممبران کی متوازن نمائندگی رکھی جائے۔ طلبہ یونینز بحال کی جائیں اور طلبا کے منتخب نمائندگان کو یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا ممبر بنایا جائے۔جامعات میں امن رواداری کے فروغ اور شدت پسندی کے خاتمے کے لئے سٹو ڈنٹس سو سائیٹیز کو مطلوبہ فنڈز فراہم کئے جائیں۔
پاکستانی جامعات کی رینکنگ کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہتر بنانے کے لئے خصوصی پروگرام تشکیل دیئے جائیں۔ قومی اور صوبائی دونوں سطح پر کوالٹی اشورنس، فنڈنگ، ریگولیرٹی فریم ورک اور جامعات کی درجہ بندی کے معاملات علیحدہ علیحدہ کیا جائے۔ فیکلٹی کی تربیت کے لئے ذیادہ سے ذیادہ مواقع فراہم کئے جائیں۔ سینٹ کی مشترکہ قرار داد کے مطابق یونیورسٹی اساتذہ کی ریٹا ئر منٹ کی عمر 60 کے بجائے 65 کی جائے اور یونیورسٹی فیکلٹی اور محققین کے لئے ٹیکس میں 75 فیصد رعایت دی جائے۔
صوبائی اور وفاقی دونوں ہائر ایجوکیشن کمیشنز کی خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے ان اہم اداروں کے سالانہ بجٹ میں اضافہ کیاجائے۔ بے روزگار پی ایچ ڈی ہولڈرز کی ملازمتوں کے لئے خصوصی پالیسی مرتب کی جائے۔ ٹیکنالوجی پر مبنی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس حوالے ترقی یافتہ ممالک کے اشتراک سے کمیونٹی کالجز اور ٹیکنالوجی یونیورسٹیز کا قیام عمل میں لایا جائے۔ اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو ہر حد تک ممکن بنایا جائے اور اس کے لئے عوامی وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے انتخابی منشور میں اس ایجنڈے کو شامل کرنا ہوگا کیونکہ ایسی اصلاحات کے ذریعے ہی اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں اس وقت منظور شدہ جامعات کی تعداد 188اور سب کیمپسز کی تعداد 110سے تجاوز کر گئی ہے جہاں پر 1.7ملین طالب علم اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر ملک و ملت کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں فعال کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ ملک کی معاشرتی اور معاشی ترقی میں اتہائی اہمیت کا حامل ہے، اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات نے امریکہ جاپان، جنوبی کوریا،چین، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اب ضروری ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں 2018کے قومی انتخابات کے موقع پر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے متفقہ میثاق پر اتفاق کریں۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں کو یہ بھی عہد کرنا ہوگا کہ وہ اعلیٰ تعلیمی شعبہ میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت سے گریز کرتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ اور شفافیت کی پالیسی پر کار بند رہیں گی اور جامعات کی خود مختاری کو یقینی بنائیں گی جبکہ وفاقی ایچ ای سی، صوبائی سطح پر قائم ایچ ای سیز سمیت 188جامعات کی بڑھتی ہوئی ضروریات پورا کرنے کے لئے ہر طرح کا تعاون یقینی بنائے گی۔
ابھی حال ہی میں ہائر ایجو کیشن کے نو منتخب چیئرمین ہائر ایجو کیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد ہوا جس میں انہوں نے پاکستانی جامعات کی بین الاقوامی درجہ بندی میں بہتری کے لئے اپنے لائحہ عمل کو واضح کیا اور ماضی کی ناقص پالیسیوں کو رد کر کے صوبائی ہائر یاجو کیشن کمیشنز کے ساتھ مل کر اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے کام کرنے کا عزم کیا ہے ،وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان میں تین دہائیوں سے طلبا ءیونین پر عائد پابندی کو جمہوی روایات کے منافی سمجھتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ وہ خود بھی زمانہ طالب علمی میں طلبا ءیونین کا حصہ رہے ہیں اور ان یونینز کی افادیت کو سمجھتے ہیں،ان کے مطابق اگرجامعات کو انتہا پسندی سے پاک کرنا ہے تو غیر نصابی سر گرمیوں کو پروان چڑھانا ہوگا۔ڈاکٹر طارق بنوری نے تقریب کے اختتام پر سفیروں ، ماہرین تعلیم ،طلبا ءاور سوشل سائنٹسٹ سے تعلیم کی بہتری کے لئے تجاویز بھی حاصل کیں ۔
اسی طرح مجھے کچھ روز قبل ایجو کیشن یونیورسٹی لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا ،تقریب میں وفاقی اور صوبائی ہائر ایجو کیشن کمیشنز کے نمائندگان موجود تھے ،مقررین نے جامعات کی خود مختاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مطالبے پر زور دیا ۔ مقررین کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی ایچ ای سی ملکر مشترکہ مفادات کو نسل کے فیصلو ں پر عملدرآمد یقینی بنائیں ۔صوبائی سطح پر مضبوط کمیشنز ہی وفاقی ایچ ای سی کی اصل قوت ہیں ۔قومی سطح پر ماہرین اعلی تعلیم اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں پر مشتمل ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو اعلی تعلیمی شعبہ سے متعلق پالیسیوں اور پروگراموں کا جائزہ لے ۔ ملک میں ہائیر ایجو کیشن کے شعبہ کو مستحکم کرنے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کو یقینی بنایا جائے ۔ تعلیم کیلئے 4فیصد جبکہ اعلی تعلیم کیلئے 25فیصد بجٹ مختص کرنے سے متعلق آئینی ترمیم کی جائے ۔ شرکاءنے اس پر اتفاق کیا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے بعد جامعات کے سربراہان کی تعیناتی صوبائی حکومتوں کا حق ہے ۔ تقریب میں ہی مجھے پتہ چلا کہ لاہور کی سطح پر گزشتہ پانچ سالوں میں یہ پہلا موقع ہے جسمیں اعلی تعلیمی شعبہ کے مسائل اور حل کیلئے وفاقی اور صوبائی ایچ ای سی دونوں کی اعلی شخصیات نے شرکت کی ہے ، یہ یقینا نیک شگون ہے ۔
جس طرح تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لئے ماہرین تعلیم نے سر جوڑ لئے ہیں اسی طرح بے روز گاری کے عفریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے بھی پاکستان میں انتہائی اہم ا قدامات اٹھائے جا رہے ہیں ، منسٹری آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اجنائٹ کے باہمی اشتراک اور ایم کمیونیکیشن(میڈیا گروپ) و دیگر اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے پاکستان میں دس لاکھ سے زائد فری لانسرز کی ٹریننگ کا ایک عظیم الشان منصوبہ ڈ جی سکلز(DIGI SKILLS)کے نام سے شروع کیا جا رہا ہے جس کی با قاعدہ کلاسز کا آغاز یکم اگست سے ہونے جا رہا ہے۔
اس منصوبے میں فری لاننسگ،ای کامرس مینجمنٹ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ ،ڈیجیٹل لٹریسی،آٹو کیڈ ،کری ایٹو رائٹنگ، گرافکس ڈیزائننگ ،سرچ انجن آپٹمائزیشن،کیوک بکس ، ورڈ پریس وغیرہ جیسے کورسز سکھائے جائیں گے اور یہ تمام ایسے کورسز ہیں جو ملازمت فراہم کرنے والے اداروں کی کمزوری ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کاموں کے لئے آن لائن جابز کی بھی کوئی کمی نہیں ،اس منصوبے کا حصہ بننے کے لئے فری رجسٹریشن جاری ہے ،خواہشمند حضرات اس منصوبے کی ویب سائٹ پر اپنی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں۔سوچئے اگر صرف ایک ہی منصوبہ دس لاکھ لوگوں کو روزگار فراہم کر سکتا ہے یا ہنر مند بنا سکتا ہے تو یقینا اس طرح کے مزید منصوبے ایک روشن اور خوشحال پاکستان کے ضامن ہیں۔اب اک نئے دور کا آغاز ہو نے والا ہے،پاکستان کرپشن ،بے روز گاری، انتہا پسندی کے عفریت سے نکلنا چاہتا ہے،احتسابی عمل کا آغاز ہو چکا ہے ، تبدیلی ہماری دہلیز پر دستک دے رہی ہے ،اب اقبال کا شاہین بننے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کا وقت آ گیا ہے ،اب فیصلہ اور پاکستان کا مستقبل ہمارے ہاتھ میں ہے ۔
اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پرشیئرکریں