ن لیگ بری طرح ٹوٹ چکی ہے ۔ ایک کے بعد دوسرا اور تیسرا فارورڈ بلاک بنا اور الگ ہو گیا ، شہباز شریف یہ سمجھتے تھے کہ نواز شریف کا پنجاب میں کچھ نہیں میرے ہاتھ میں سب کچھ ہے وہ جیسے چاہیں گے ان کے بغیر جماعت کو چلا سکتے ہیں مگر انہوں نے اپنی پوزیشن جماعت میں بھی اور عوام میں بھی دیکھ لی ہے، یہاں تک کہ جو اپوزیشن گٹھ جوڑ بنا تھا ان میں بھی نظریاتی اتحاد نہیں ہو پایا ہے جو کہ پاکستان میں جمہوری شعور کی عکاسی تو کرتا ہے لیکن! ووٹ اور سیاسی جوڑ توڑ میں ذاتی مفادات، ترجیحات میں شامل ہیں ۔
نظریات اور عوام کی بات لفاظی نظر آتی ہے جس کا پسِ منظر سیاسی ہے۔ سابقہ دور حکومت کے آخری وقت میں اچانک جنوبی پنجاب میں ہل چل مچ گئی اور ایک ہی وقت میں کئی ن لیگی ایم پی اے اور ایم این ایزحکومت سے علیحدہ ہو گئے، خسرو بختیار نے صوبہ محاذ کا نعرہ لگایا اور پانچ سال کی نیند پوری کرنے کے بعد اچانک اسے یاد آئی کے انتخابات نزدیک ہیں اور میاں صاحب بھی پکڑ میں ، تحریک انصاف کے راستے صاف دکھائی دینے لگے تو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر ڈالی جس میں اس بات کا رونا پیٹا کہ پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہمارے علاقوں کو کچھ دیا جا رہا ہے ، پنجاب صرف لاہور کا نام تو نہیں ہے جنوبی پنجاب بھی اسی کا حصہ ہے۔
یہ نعرہ انہیں سابقہ پی پی پی کے دورِ حکومت سے ملا کہ اس سے یوسف رضا گیلانی نے بہت فائدہ اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بنایا گیا تھا جبکہ صدر خود آصف علی زرداری بنے ، اس وقت پیپلز پارٹی کے اس فیصلے کو خوش آئند تصور کیا جا رہا تھا کہ پیپلز پارٹی واقعی جمہوری جماعت ہے جس میں اقتدار کو بانٹا گیا ہے اوروزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بطور وزیر اعظم یہ توقعات کی جا رہیں تھیں کہ وہ جنوبی پنجاب سے ہیں تو ہو سکتا ہے وہ ایک الگ صوبے کا قیام عمل میں لائیں ۔
اسی سلسلے میں سرائیکستان صوبے کی تحریک بھی بڑی سر گرم اندا ز میں متحرک ہو ئی تھی ، لیکن بعد میں جب دیکھا گیا کہ یوسف رضا گیلانی کا جنوبی صوبہ پنجاب بھی صرف ملتان اور وفاق صرف سندھ کے کراچی تک ہی محدود ہے تو وہ تحریک مدھم ہو نا شروع ہو گئی ۔جنوبی پنجاب کے ضلع جھنگ کے نواحی علاقے سے گیس کے چار چھوٹے بڑے ذخائز بھی حاصل ہوئے جو صرف ملتان کو باہم پہنچائی گئی اور جھنگ کو اس کی ایک لو تک نصیب نہ ہوئی ۔
اس سے پہلے کے دور کا اگر ہم مبہم سا جائزہ لیں تو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی تھے اور انہوں نے صحت اور تعلیم کے شعبوں کے ساتھ ساتھ میرٹ کے بنیادی اصولوں کو تقویت دی ، گجرات کو انہوں نے مضبوط بنایا تھا مگر جنوبی پنجاب کو بھی بہت فائدہ پہنچایا لیکن اس حکومت میں ان کا الحاق پرویز مشرف کے ساتھ ہونے کی وجہ سے انہیں بہت حد تک نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے عوامی نمائندے صرف مفادات اور وڈیرہ شاہی کی سیاست کرتے ہیں یعنی اگر یوں کہہ لیں کہ یہ سیاسی چنگیز خان ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔
ان لوگوں میں زیادہ تر کاروباری لوگ ہیں جن کا حکومت میں رہنا مجبوری ہے ،اور اس کی بڑی وجہ ان کے لیے کاروباری شیلٹر کا ہونا ہے جیسا کہ ابھی خسرو بختیار نے اسے کیش کیا ۔ خود تو الیکشن ہار گیا مگر اس کا بیٹا اور اس کے ایک رشتہ دار کو اس حکومت میں اچھی جگہ ملنے والی ہے کیونکہ اس نے وہ سارا لیگی فارورڈ بلاک پی ٹی آئی میں ضم کر دیا تھا، ملک ریاض اور میاں منشاء ذرا ان سے ہٹ کر ہیں کیونکہ وہ یہاں کے نہیں ہیں ، کاروبار تو وہ بھی کرتے ہیں اور بہت سارا کالا دھن بھی ہے ان کے پاس لیکن وہ مل بانٹ کر کھانے والے لوگ ہیں اور یہ لوگ اکیلے سب کچھ ہضم کرنا چاہتے ہیں ۔
ان نمائندوں کو سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران فصلی بٹیرا یا گاہک سمجھتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ یہ کبھی کسی ایک کے نہیں ہو سکتے انہیں صرف اقتدار کی ہوس ہے اسی لئے وہ انہیں ساتھ ملا تو لیتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ان کا سلوک عام لوگوں سا ہوتا ہے ، اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے صرف کاروبار کرنا جانتے ہیں معاشرت ، سماجیت اور اسلامیت جیسے اہم عناصر جو صرف تعلیم کے ذریعے ہی آ سکتے ہیں ان میں نہیں ہیں ۔
اب میں اپنی پہلی بات کی طرف لوٹتا ہوں کہ ن لیگ آئندہ ہفتوں میں صرف لاہور تک محدود رہ جائے اور یہ ہی شہباز شریف کی حقیقی ن لیگ ہو گی میاں نواز شریف کی نہیں ۔ حالیہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ایک اور فارورڈ بلاک مخدوم احمد محمود نے پرویز الٰہی کو ووٹ دئیے اور آئندہ ہو سکتا ہے کہ سو کے قریب لیگی ایم پی ایز ق لیگ میں شامل ہوجائیں ۔ اس طرح ق لیگ پھر سے وجود میں آ جائے گی لیکن اسے وجود میں لانے سے پہلے پنجاب کو تقسیم کرنے کے بعد ایک الگ صوبے کی اشد ضرورت ہے ۔ جن تحریکوں کی میں نے اوپر بات کی ہے ان سے میں ذاتی طور پر اختلاف کرتا ہوں ، کیونکہ وہ تقسیم سیاسی اور لسانی بنیادوں پر چاہتے ہیں ۔
اگر جنوبی پنجاب والوں کو نو منتخب حکومت واقعی کچھ دینا چاہتی ہے تو انتظامی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تقسیم کرے جو وقت کی اہم ضرورت ہے ۔اسی طرح کچھ قدیمی شہروں کی تقسیم بھی ضروری ہے کیونکہ وہاں کی آبادی میں اب بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے اور بنیادی ضروریات باہم نہیں پہنچ رہیں۔ جیسے ضلع جھنگ ہے جس کی چار تحصیلیں ہیں جو قریب ضلعوں کی آبادی کو پہنچ چکی ہیں انہیں ضلع کا درجہ دے کر جھنگ کو ان کی ڈویژن بنا دیا جائے تو انتظامی امور کافی حد تک حل ہو سکتے ہیں اور وسائل میں اضافہ کی بدولت مسائل کا حل بھی کافی حد تک ممکن ہو جائے گا۔ لوگ ملکی نظام کو اسی لئے کوستے ہیں کہ اس کے پیچھے بڑی وجہ ان علاقوں کی انتظامی بد عنوانی ہے جس کے پیچھے سیاسی دباؤ کارفرما ہوتا ہے۔ جب پرانے شہروں کو خاص آبادی کی نسبتوں پر تقسیم کر کے انہیں اختیار سونپ دیا جائے گا تو کافی حد ملک بحرانوں سے نکل جائے گا اور غریب طبقہ خوشحال ہو جائے گا۔ اگر ق لیگ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہے تو چوہدری پرویز الٰہی کے پاس یہ اچھا موقع ہے کہ وہ ن لیگ کو پنجاب سے ختم کرنے کیلئے عوامی مفاد ات کی تدریج کرے ۔چھوٹے شہروں کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم و وسعت پر غور کرے اور پنجاب میں ایک نئے صوبے کے قیام کیلئے راہیں ہموار کرے۔