The news is by your side.

چین اور افغانستان اقتصادی معاہدہ ترقی و خوشحالی کا آغاز ثابت ہوگا یاایک نیا محاذ؟

عالمی سیاست میں چین، افغانستان، اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے اردگرد حالیہ پیش رفت ایک پیچیدہ پہیلی ہے۔ افغانستان سے متعلق چین کے حالیہ اقدامات اس کی اسٹریٹجک دور اندیشی کو ظاہر کرتے ہیں۔ کابل میں سفیر ژاؤ ژینگ کی تقرری طالبان کی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے میں بیجنگ کی دل چسپی اور طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کرنے کے باوجود، اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے چین کی سفارتی حکمت عملی خطے میں افغانستان کے وجود کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

حالیہ دنوں میں افغانستان میں طالبان حکومت اور چائنا نیشنل پیٹرولیم کارپوریشن کے ذیلی ادارے کے درمیان 25 سالہ اقتصادی معاہدے نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی ہے۔ 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد وہاں سفیر تعینات کرنے والے پہلے ملک کے طور پر، چین کا یہ اقدام افغانستان کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرنے کے ارادے کی علامت ہے۔

اقتصادی اور دفاعی معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین ایشیائی ممالک کیلئے افغان چین اقتصادی تعلقات میں اس پیش رفت کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی دوسرے ملک نے طالبان کے ساتھ باضابطہ طور پر سفارتی تعلق قائم کیا ہے۔ تاہم چین نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ آیا یہ تقرری طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی علامت ہے یا نہیں۔ افغانستان کے اسٹریٹجک محل وقوع اور اس کے معدنی وسائل کو دیکھتے ہوئے بیجنگ کا کابل میں سفارتی قدم غیر معمولی ضرور ہے۔

طالبان حکومت کے ساتھ چین کے 25 سالہ اقتصادی معاہدے میں تیل اور گیس کے پانچ ذخائر کی دریافت کے لیے پہلے سال میں 150 ملین ڈالر اور آئندہ تین سالوں میں 540 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ سرمایہ کاری افغانستان کے معاشی استحکام میں مددگار ہوگی۔ معاہدے میں طالبان حکومت کو تیل کی پیداوار سے 15 فیصد رائلٹی فیس کی فراہمی بھی شامل ہے، جو 200 ٹن سے شروع ہو گی اور آہستہ آہستہ بڑھ کر 1,000 ٹن تک پہنچ جائے گی۔ مزید برآں، چین اس معاہدے کے تحت افغانستان کی پہلی خام تیل کی ریفائنری تعمیر کرے گا، جو ملک کے اقتصادی انفراسٹرکچر کو تقویت دینے کے معاملے میں چین کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ افغانستان کے پاس لیتھیم، تانبا اور قدرتی گیس سمیت وسیع معدنی دولت ہے، جس کی مالیت 10 ٹریلین ڈالر تک ہے۔ لیتھیم کے ذخائر میں چین کی سرمایہ کاری خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ افغانستان کا صوبہ بدخشاں چین کے سنکیانگ صوبے کے ساتھ سرحدی طور پر اشتراک کرتا ہے۔ یہ جغرافیائی قربت چین کی اقتصادی سرگرمیوں کو آسان بنائے گی۔

ماہرین کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی کامیابی کے لیے افغانستان کا استحکام ضروری ہے، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ ایک مستحکم افغانستان CPEC کے لیے ایک گیٹ وے کی سی اہمیت رکھتا ہے، جو چین کو بحیرہ عرب، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک براہ راست راستہ فراہم کر ے گا۔ لیکن چین، افغانستان میں بھی بی آر آئی جیسے منصوبے کا آغاز کرنے جا رہا ہے، جس کے تحت افغانستان سے ایران کی بندر گاہ چاہ بہار تک رسائی حاصل کرنے کیلئے چین ایک سڑک تعمیر کرے گا۔اس منصوبے سے متعلق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حالیہ منظر نامے میں پاکستان نے سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے سی پیک پر کام میں سست روی کا مظاہرہ کیا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ چین، پاکستان کا متبادل ڈھونڈناچاہتا ہے؟ اس اقتصادی منصوبے اور مغربی پڑوسی ملک میں استحکام میں چین کی دلچسپی اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ سنکیانگ صوبے میں انتہا پسندی اور علیحدگی پسند تحریکوں کی روک تھام کیلئے مدد ملے گی، جہاں چین کو سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔

افغانستان میں ایک طرف بین الاقوامی اتفاق رائے کے بغیر چین کا طالبان کے ساتھ سفارتی و اقتصادی روابط قائم کرنا مغربی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو کشیدہ کر سکتا ہے تو دوسری طرف اقتصادی معاہدے چین کے طالبان پر اثر و رسوخ کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے بیجنگ کو گرم پانی تک رسائی اور دنیا بھر میں تجارت کے خواب کو پورا کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے ساتھ ہونے والا بی آر آئی معاہدہ جو انتہا پسندی اور سرحدی مداخلت کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے، کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے افغان حکومت کو اعتماد میں لینے سے سی پیک کی بحالی کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن گوادر بندرگاہ میں چین کی دلچسپی اور افغانستان کے لیے اس کے منصوبے، بلوچستان میں خدشات کو بڑھا سکتے ہیں، جہاں مقامی لوگوں نے CPEC پر تنقید کی ہے۔ چین کو افغانستان کے معدنی وسائل کے دو طرفہ فوائد کی منصفانہ تقسیم اور ماحولیاتی تحفظ کا چیلنج بھی درپیش ہوگا۔ چین کے اقتصادی مفادات اور علاقائی استحکام بظاہر تو متوازی چلتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن عالمی اجارہ داری کی لڑائی میں یہ خطہ مزید مشکلات اور عالمی مداخلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان کوششوں کی کامیابی کا انحصار چین کی سفارتی حکمت عملی کے ساتھ اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو متوازن کرنے کی صلاحیت پر ہے۔

اس پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں چین کے اقدامات کو بین الاقوامی برادری، پڑوسی ممالک اور خطے کے اسٹیک ہولڈرز اس امید کے ساتھ قریب سے دیکھیں گے کہ افغانستان کی تعمیر نو اور وسیع تر علاقائی خوشحالی میں مثبت کردار ادا کیا جاسکے۔ اگرچہ فوری توجہ اقتصادی فوائد پر مرکوز ہے، لیکن طویل مدتی نتائج سیاسی اور معاشی حالات کو بدل سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپر پاور بننے کی دوڑ میں چین کی خطے کے لئے امن و استحکام کیلئے پالیسیاں اور اقدامات کارگر ثابت ہوں گے یا ایک نئے محاذ کو کھولیں گے؟

شاید آپ یہ بھی پسند کریں