حالیہ انتخابات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مابین ایک بڑا معرکہ ہوا ۔ یہ جنگ در حقیقت پاکستان کی بقاء و استحکام کے لیے لڑی گئی اور فتح ملکی اسٹیبلشمنٹ کی ہوئی حالانکہ اس میں پاکستان کو اب تک بہت سے امتحانات کا سامنا ہے مگر یہ قربانیاں ہمارے لئے باعث فخر ہیں ۔میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اب ہم کم از کم سر جھکا کر جوتے کھانے کی بجائے سینہ تان کر گولیاں کھانے کے لیے تیار ہیں۔یہ انتہائی پیچیدہ مسائل ہیں جن پر بات کرنا اور اس کے بارے میں آگاہ کرنا ازحد ضروری ہوچکا ہے۔
وقت آ گیا ہے جس کے بارے میں آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ اب ہمیں اس کے لیے تیار ہو جانا چاہئے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے مدینہ ثانی کے معرض وجود میں آنے کے لیے غیب سے امداد باہم پہنچائی ۔ جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنا لہو ، عصمتیں اور مال پیش کئے ۔اگر ہم تاریخ ریاست مدینہ کا ایک مبہم سا جائزہ لیں جس کی بنیاد ہمارے پیارے نبی محمد الرسول اللہ ﷺ نے رکھی تھی ، ا س کے قیام کے بعد جن مشکلات کا سامنا اس ریاست مدینہ کو کرنا پڑا اور جن امتحانات سے وہ گزرے تھے ویسے ہی حالات سے ملک پاکستان بھی دو چار ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ صحابہؓ کے ایمان ، توکل اور عمل میں کبھی فرق نہیں آیا ۔ ان کی ثابت قدمی، استقلال و استقامت اور محمد الرسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشق کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا سرخرو کیا کہ عرب و عجم پر بادشاہت دی ۔ اور جب تک جمہور خلافت کا دور رہا یعنی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی کے آئین کی پاسداری ہوتی رہی تب تک تاریخ گواہ ہے مسلمان کبھی رسوا نہیں ہوئے۔اور پاکستان کو پچھلے 53 سال کی طویل ذلالت و رسوائی کا سامنا اس لئے ہے کہ ہم نے جس نعرے اور جس بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا اور پینسٹھ کی جنگ میں سرخرو ہوئے اب اس نعرے کی سربلندی ہمارے ترجیحات میں شامل نہیں ۔
ہر طرف نفسا نفسی ، استحصال اور استحقاق کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ حکمرانوں میں مطلق العنانی کا عنصر عیاں ہے اور عوام میں غلامی جیسی برائی پائی جاتی ہے ۔آج پاکستان کے مسلمان حکمران کلمہ حق کی شہادت دینے اور باطل کو باطل کہنے سے ڈرتے ہیں۔ہر طرف سے خوف دل میں گھر کر چکا ہے ، انہیں آسمانوں سے ، اپنے اطراف سے صرف ایک ہی فکر کھائی جاتی ہے اور وہ ہے کہ یہ ملوکیت نہ چھن جائے! یہ بادشاہت نہ چلی جائے ! اور اسے قائم رکھنے کے لیے وہ ہر حد تک گر جانے کو تیار ہیں لیکن اگر کسی چیز کی فکر نہیں تو وہ ایمان ہے، آخرت ہے اور یہ ملک پاکستان ہے ۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ساری دنیا میں حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ، کیا فتنہ تاتار سے یہ لوگ سبق نہیں سیکھتے ؟ میں نہیں جانتا کہ یہ لوگ کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔ اللہ کی شریعت کو تھامنے کی بجائے جھوٹے خداؤں کے کہنے میں آکر عوام پر مظالم کے پہاڑ کیوں توڑتے ہیں ؟۔ لیکن انہیں ضرور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے اس بات پر کہ وہ کئی نسلیں مٹا دے اور سراکا جیسے نبی ﷺ کے دشمن کو مشرف بہ اسلام کر دے، تاتاریوں کی اولادوں اور سکندر یونانی کی اولادوں کو ہدایت دے کر اپنا کام لے ۔
پاکستانی عوام تمام تر بنیادی حقوق کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ وہ ہر بار نام نہاد جمہوری قوتوں پر یقین کر کے انہیں اپنا حکمران منتخب کرتی ہے اورسب ان کے جذبات اور احساسات سے کھیل کر دنیا کی رنگینیوں میں گم اپنی ذات کی فلاح کیلئے تمام تر وسائل خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔ صحت ،تعلیم،تحفظ اور کھانے کو ہم کیا روئیں ؟ اب تو پانی جیسی چیز بھی نایاب ہونے جا رہی ہے ۔ بڑے بڑے اجلاس ہو رہے ہیں، فنڈز جمع کئے جا رہے ہیں ، کوئی شخص اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ، اپنے ہی بغاوت پر اتر آئے ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے ۔ پہلے تو اس طرف حکمرانوں کا دھیان نہیں گیا لیکن اب بھی پاکستانی حکمران نا بلد لگتے ہیں ۔ دور اندیشی اور فہم و فراست جیسی چیزوں سے عاری یہ لوگ کفار کے وسائل پر انحصار کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کو جان بوجھ کر سازشوں کے جال میں پھنسایا گیا لیکن اگر ایک بھی تدبیر و فہم اور عقل سلیم والا حکمران اس ملک پر حکومت کرتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
ہمیں سندھ طاس معاہدے میں بھی بہت کمزور مؤقف اپنانا پڑا اور آج باقی کے تینوں دریاؤں سے ہاتھ دھونے والے ہیں ۔ گرداس پور میں بھارت نے ڈیم تعمیر کر کے چناب اور جہلم کا پانی تو روک لیا ہے لیکن کیا کسی نے دریائے سندھ کے بارے میں بھی سوچا ہے کہ اب اس کے پانی سے بھی پاکستان محروم ہونے والا ہے؟۔
مجھے یوں دکھائی دیتاہے کہ آنے والے وقت میں اگر پاکستانی حکمران اور عوام اپنی اصل کو نہ لوٹے تو بہت قریب ہے کہ دشمن ہمیں دبوچ کھائے۔ اٹک کی نہر میں پانی کی جگہ خون بہنے لگے ۔ ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے بعد پاکستان انہیں مطمئن نہیں کر پایا ، حالانکہ ان کا کام تو صرف منی لانڈرنگ کی روک تھام کرنا ہے لیکن وہ خود تو منی لانڈرنگ میں مدد کرتی ہے اور پاکستان کے مؤقف کہ ہم لوٹا ہوا پیسہ واپس لے آرہے ہیں کو کمزور بتاتی ہے۔
یہاں دال میں کچھ کالا ہے یا ایف اے ٹی ایف کی ساری دال کالی ہے! دوسری طرف بھارت اس وقت مکمل طور پر اسرائیل اور امریکہ کی مدد سے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر چکا ہے ۔ اور وہ دریائے سندھ جو کابل سے گزرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے پر بہت بڑا ڈیم بنانے کیلئے افغانستان کو فنڈنگ کر رہا ہے
پانیوں پر جنگ کی پیشین گوئی قریب دکھائی دیتی ہے۔ دوسرا میرا چیف جسٹس پاکستان اور پاکستانی حکومت سے یہ سوال ہے کہ ڈیم بنانے میں ایک لمبا عرصہ درکار ہے جس کیلئے ابھی پاکستان کے پاس فنڈز ہی جمع نہیں ہوئے اور اس سے پہلے ہی بھارت پانی کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو جائے گا تو پھر یہ ڈیم بنانے کا کیا فائدہ ملنے والا ہے؟ بھارت ہمارا ازلی حریف ہے کبھی دوست نہیں ہو سکتا۔بھارت کے ساتھ عالم کفر بھی ہمارا کبھی دوست نہیں ہو سکتا۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اگر ہم حاکمیتِ الٰہیہ اور شریعت محمدی ﷺ کو تسلیم کر لیں تو وہ ہمیں عرب و عجم کا شہنشاہ بنائے گا۔