The news is by your side.

ٹرمپ ایران سے ماضی کا بدلہ لینا چاہتا ہے

امریکا اور ایران کے تعلقات انقلابِ ایران کے بعد تاحال بہتر نہ ہوسکے، کئی دہائیوں سے سرد جنگ کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان لفظی گولہ باری بھی جاری رہی ، امریکا کی طرف سے ایران پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام پر کام کرتے ہوئے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کے جواب میں امریکا ایران پر سخت پابندیاں عائد کرتا رہا اور یہ سلسلہ ایسے سالوں تک چلتا رہا، بالاآخر ایران اور امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ایک معاہدہ امریکی صدر اوبامہ کے دور میں طے پایا تھا۔ جو کہ جولائی 2015 میں یورپی یونین سمیت ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کا ایران کے ساتھ قرار پایا تھا۔ جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکش کے تحت ایران نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ جوہری ری ایکٹر میں بطور ایندھن استعمال ہونے اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والے افزودہ شدہ یورینیم کے ذخائر کو 15 سال کے لیے محدود کرے گا جبکہ یورینیم افزودگی کے لیے استعمال ہونے والے سینٹری فیوجز کی تعداد کو 10 سال کے عرصے میں بتدریج کم کرے گا۔

امریکہ سمیت دنیا کی چھ عالمی طاقتوں اور یورپی یونین نے ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ایران نیوکلیر ڈیل فریم ورک پر دستخط کر دیے جس کے بعد ایران نے صنعتی پیمانے پر یورینیم کی افزودگی کے عمل کو روک دیا تھا۔ جواب میں معاہدے میں شریک ممالک نے ایران پر معاشی پابندیاں کو نرم کر دیا، اسی تناظر میں یورپی کمپنیوں نے ایران میں سرمایہ کاری شروع کردی۔

امریکی صدر اوبامہ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے جوں ہی عہدہ سنبھالا تو ٹرمپ نے دیگر مخالف ممالک کے خلاف بیان دینے کے ساتھ اس نیوکلیر ڈیل فریم ورک کو بھی متنازعہ قرار دیا، رواں سال مئی کے مہینے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے اور ساتھ صدر ٹرمپ نے کہا تھاکہ ’امریکا خالی دھمکیاں نہیں دیتا، ہم ایران کے علاوہ اس سے تعاون کرنے والی ریاستوں پر بھی پابندیاں لگا دیں گے‘۔ٹرمپ نے رواں سال مئی میں جوہری ڈیل سے دستبرداری کے اعلان کے بعد 5 اگست کو ایران پر باقاعدہ پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے جس میں ایران پر اقتصادی پابندیاں دو مراحل میں عائد کی جائیں گی۔

پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے میں پہلے مراحلے پر عمل درآمد 7 اگست سے شروع ہو گیا تھا جس کے مطابق اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی ڈالر تک رسائی کو محدود کیا جانا شامل ہے تاکہ ایران اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو جائے اور اسے معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتیں سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا ، اور اس طرح ایران کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔ اسی طرح پہلے مرحلے کی پابندیوں میں بھی شامل ہیں جن میں ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں، گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر کی بھی خریداری سے محروم ہو جائے گا ، اس چیز کو دیکھتے ہوئے جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔

دوسرے مرحلے میں ایران پر پابندیوں کا آغاز رواں برس 5 نومبر سے شروع ہو گا جس سے ایران شدید معاشی مشکلات سے دوچار ہوسکتا ہے ،جس کے مطابق ایران کو تیل کی فروخت سے کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے جبکہ امریکا نے بھارت کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا 4 نومبر تک ایران تیل کی خریداری بند کردے جواب میں ایران نے بھی بھارت کو عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا اگر تیل کی خریداری مثاتر ہوئی تو وہ چاہ بہار میں بھارتی سرمایہ کاری کے لیے نئی حکمت عملی اپنائے گا۔

امریکا کا جوہری معاہدے سے علیحدہ ہونا اور اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسے دو مراحلوں میں اختیار کرنا جس میں خاص کر دوسرا مرحلہ 5 نومبر کو شروع ہورہا ہے۔ دوسرے مراحلے میں نومبر کے مہینے کی 5 تاریخ کا انتخاب دراصل امریکا ایران سے ماضی کا بدلہ لینا چاہتا ہے ، 4 نومبر 1979 کا دن امریکا تا قیامت نہیں بھول سکتا ہے۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خاتمے کے لیے اٹھنے والا انقلاب جس میں ایرانی طلباء نے 4 نومبر 1979 کو تہران میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر کے امریکی سفارتی عملے کے افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ایرانی عوام امریکا کے اس سفارت خانے کو جاسوسی کا مرکز کہتی تھی، سفارت خانے پر حملے کے بعد یرغمال بنائے گئے افراد کے بدلے ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی حوالگی کا مطالبہ امریکا سے کرتے رہے ۔بالاآخر یرغمال بنائے گئے امریکی سفارتی عملے کو رہا کرنے کے لیے مذکرات کے ہوئے تب جا کر 444 دنوں کے بعد امریکی سفارتی عملے کو رہائی ملی۔

ٹرمپ نے آتے ہی سخت گیر حکمت عملی اپنائی اور ایسے اقدامات اٹھائے جس سے حریف ممالک کے ساتھ اتحادیوں کو بھی پریشانی اٹھانا پڑی، امریکا کی ایران سے جوہر معاہدے کی دستبرداری میں اسرائیل کا بہت بڑا کردار ہے وہ ایران کی شام میں موجودگی سے خوفزدہ ، رواں سال اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے نیوکلیائی پروگرام سے وابستہ فائلیں چوری کر کے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا، نیویارک ٹائمز کے مطابق موساد نے 31 جنوری کو ایک آپریشن انجام دیا تھا جس کے بارے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنی ایک تقریر کے دوران دستاویزات دکھا کر کہا تھا یہ ان دستاویزات کی نقول ہیں جو اسرائیلی جاسوس ادارے نے تہران سے حاصل کی ہیں۔جو کہ 55 ہزار صفحات اور 153 سی ڈیز پر مشتمل ایران کے ایٹمی اسلحے کے پروگرام سے متعلق ہیں اسرائیلی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کا مقصد پانچ ایٹم بم تیار کرنا تھا، جن میں سے ہر ایک کی طاقت دس کلو ٹن ٹی این ٹی کے برابر ہونی تھی۔ ان خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد ٹرمپ جوہری ڈیلی کو متنازعہ قرار دینے کے بیان دینے شروع کر دیے تھے، جبکہ ایران ان دستاویزات کو فرضی اور بے بنیاد کہتا رہا۔ ان خفیہ دستاویزات کی وجہ سے ٹرمپ کو اس بات کا جواز مل گیا کہ وہ جوہری معاہدے سے امریکا کو الگ کر لے۔

ایران کو تو پہلے ہی مشکل معاشی صورت حال کا سامنا تھا ، ایران کی کرنسی کی قدر دن بدن کم ہورہی ہے ایرانی کرنسی موجودہ دور میں تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ، ایران کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نےبلیک لسٹ میں شامل کر رکھا ہے ، موجودہ پابندیوں کے اطلاق سے یورپی یونین ، چین ، روس اور بھارت کو بھی تشویش لاحق ہوگئی ہے ،ایران پر امریکی پابندیوں کے ایک روز قبل اٹلی اور فرانس کی مشترکہ ایوی ایشن کمپنی کے تیار کردہ پانچ کمرشل طیارے ایران کے حوالے کیے گئے ہیں جبکہ ایران کی طرف سے 20 طیاروں کا آرڈر دیا گیا تھا جن میں سے کل 13 کمرشل طیارے ایران کے حوالے کیے گئے ہیں باقی سات طیارے شاید کسی نئے معاہدے کے بعد ہی ایران کے حوالے کیے جاسکیں گے۔ معاشی بحرانوں اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے اندرونی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں حزب اختلاف جماعتیں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں ، ادھر سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے حسن روحانی کو عہدہ چھوڑنے کا کہہ دیا ہے۔

ایرانی حکومت و صدر حسن روحانی بھی کہے چکے ہیں وہ امریکا کو بھر پور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ٹرمپ ایران پر پابندیاں لگانے کے باوجود ایرانی صدر حسن روحانی سے ملنے کے خواہشمند ہیں ، لگتا ایسے ہے یورپی یونین ، روس ، چین کے دباؤ کے بعد ٹرمپ اور حسن روحانی کی ملاقات ہو گی جس میں نئی شرائط سے کوئی معاہدہ طے ہو گا ، جس کا کریڈٹ ٹرمپ لینا چاہتا ہے کیونکہ امریکا میں آئندہ الیکشن میں ٹرمپ کو مزید ایک اور پلس پوائنٹ مل جائے۔ اگر امریکا کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ نہ ہوا تو چین ،روس اور یورپی یونین مزید معاہدہ کر کے ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے ، امریکا کے علاوہ ایران کے ان ممالک کو زیادہ معاشی فائدے حاصل ہوں گے، امریکا کی سخت پالیسوں کی وجہ سے نئے بلاک بنتے جارہے ہیں جس سے مستقبل میں امریکا تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔

 

+ posts

عبدالجبارخان دریشک کا تعلق بلوچستان کے ضلع راجن پور سے ہے‘ ماس کمیونی کیشن میں ایم ایس ماس کی ڈگری کے حامل ہیں اور ساتھ ہی ایل ایل بی کی سند بھی رکھتے ہیں۔

ان سے مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
[email protected]

شاید آپ یہ بھی پسند کریں