The news is by your side.

جنازہ تو جائز کروانا ہی ہے

دوپہر کا کھانا شروع ہی کیا تھا کہ کسی نے آکر بتایا کہ بابا متھیلا واپس آگیا ہے۔ روٹی پکاتی ماسی جنتیں (جنت) ناک چڑھا کر بولی پھر آگئی یہ مصیبت، نہیں تھا تو کیا آرام تھا اب پھر وہی لڑائی کھانا نہیں دیا، روٹیاں جلی ہوئی تھیں، چائے بنا کر دو اور وہ بھی دودھ پتی ۔ والدہ جو کہ پاس ہی بیٹھی ہوتیں کہتی کیا ہوگیا جنتیں اگر آجاتا ہے تو کام بھی تو کرتا ہے باہر آئے گئے کو چائے پانی پوچھتا ہے کرسیاں چارپائیاں لگاتا ہے، ماسی جنتیں جواب میں کہتیں بی بی جی اور تو ٹھیک ہے لیکن ہر دفعہ مجھ سے کہتا ہے کہ میرا کسی سے نکاح پڑھوا دو کہ میرا جنازہ بھی جائز ہوجائے ۔ بھلا اس عمر میں اب کون اس کو اپنی بیٹی دے گا جو اس کی حالت ہے اس سے تو کوئی بیوہ بھی شادی نہ کرے نہ کوئی گھربار نا پیسا دھیلا ، نہ ماں باپ اور ذات برادری کا پتہ ۔ جب پوچھو کہہ دیتا ہے کہ ماں باپ بھائی بہن سب بٹوارہ کے وقت پیچھے کہیں ہی رہ گئے تھے میں بہت چھوٹا تھا مجھے کیا پتہ کہ میری برادری ذات کیا ہے ۔ حقیقت بھی یہ تھی کہ بابا متھیلا جس کا اصل نام ناجانے کیا تھا گہرا سانولا رنگ چھوٹی چھوٹی آنکھیں چھوٹی سی گردن پچکا ہوا ناک اور پتلے جسم کا مالک تھا شاید اسی لئے اس کے کسی مالک نے اس کا نام متھیلا رکھ دیا تھا کہ وہ چھوٹے تھیلے جیسا دکھائی دیتا تھا۔

ماں باپ بہن بھائیوں سے بٹوارے کے وقت بچھڑے متھیلے کی کل کائنات ایک لوہے کا اٹیچی کیس جس میں ایک گول سٹیل کے فریم میں جڑا چھوٹا سا شیشہ ،سرمے دانی، ایک کنگا اور کچھ عجیب سا الم غلم جیسے وہ اٹھائے گھر گھر نوکریاں کرکے اپنا پیٹ پالتا تھا گھر تو تببساتا اگر سر پر چھت ہوتی خواہ ایک کمرے ک کٹیا ہی کیوں نہ ہوتی کوئی بڑا ہوتا جو اس کی فکر کرتا یا جیب میں کوئی دھیلا ہوتا پیسہ ہوتا وہ تو جو کماتا کھا پی جاتا یا دوسروں کو لٹوا بیٹھتا ۔

اس کی عادت تھی کہ وہ کہیں بھی ٹک کر کام نہ کرتا تھا کبھی تین ماہ کسی ایک گھر تو کبھی کسی زمیندار کے ڈیرے پر ہی چھ چھ ماہ ڈیرہ جا لگایا۔ بعض اوقات تو کسی مزار پر جا کر بس لنگر پر ہی گزارہ کرتا ۔ تو میں یہ بتا رہا تھا کہ وہ پھر ایک دفعہ ہمارے گھر آگیا یہ اسی کی دھائی کی بات ہوگئی ۔ یہ بھی اس کی عادت تھی کہ کبھی بتا کر نہیں آتا اور نہ کبھی بتا کر جاتا تھا بس اسی وقت پتہ چلتا جس دن اُسے تنخواہ ملتی اور ہم صبح اٹھ کر دیکھتے تو نہ وہ ہوتا اور نہ اس کا اٹیچی کیس ، پھر چند مہینوں کے بعد اچانک کہیں سے آدھمکتا اور لاکھ کہتے کہ ہم تو نوکر رکھ لیا لیکن کہتا کہ میں اب آیا ہوں تو یہیں رہوں گا چاہئے آپ مجھے تنخواہ دیں یا نہ دیں ۔

جن دنوں میں وہ ہماری کوٹھی میں کام کرتا تھا تو کچھ عجیب غریب حرکتیں بھی کرتا رہتا تھا اُس کا معمول تھا کہ ہر جمعرات کو وہ مرغی یا بڑا گوشت لاتا باہر والے لان کے ایک جانب اینٹوں کا چولہا بناتا اور اس پر خود ہی پکانا شروع کردیتا جب کوئی اس سے پوچھتا کہ بابا جی یہ کیا کررہے ہو تو کہتا کہ آج اس نے جنوں کی دعوت کی ہے جو رات بارہ بجے کے بعد اس کے پاس آئیں گے۔ اس کا دعوی تھا کہ اس نے کئی جن اورپریاں قابو کررکھی ہیں۔ تجسس میں میں نے ایک دو دفعہ چھپ کر اُسے دیکھا کہ کیا واقعی رات کواس کے پاس جن پریاں آتی ہیں وہ رات بارہ بجے وہیں اس جلائی ہوئی آگ کے قریب بیٹھ جاتا اور پھر ہاتھ ہلا ہلا کرہوا میں کسی سے باتیں شروع کردیتا بعض اوقات وہ ایسا ظاہر کرتا کہ جیسے کسی ان دیکھی مخلق سے ڈر رہا ہے اور کبھی خود جلال میں آکر کسی کو ڈانٹنے کی اداکاری کرتا ۔

میری نظر اس ہانڈی پر بھی ہوتی جو وہ اکیلا ہی کھا رہا ہوتا کبھی کبھی وہ ہاتھ میں نوالہ پکڑ کر کسی کو کہتا کہ لے کھا مر لیکن پھر خود ہی کھا کر کہتا کہ نئیں کھاتا تو نہ سہی ۔ہمارے گھر کےباہر ساتھ والے گھر میں ایک امرود اور جامن کا درخت لگا تھا بابا متھیلے کا یہ بھی دعوی ٰتھا ان کے اوپر بھی جن اور پریاں رہتی ہیں لیکن ہماری والد اور والدہ کی تربیت کچھ ایسی تھی کہ کہ ہمیں کبھی اس کی باتوں پراعتبار نہ کرتے اور نہ کبھی ہمیں اس کی ان حرکتوں سے خوف آیا ۔ اس کا یک ہی مسئلہ تھا کہ کوئی اس کی شادی کروادے اور اسی چکر میں وہ کئی مرتبہ اپنی کل جمع پونجی نوسربازوں کے ہاتھوں لٹوا بیٹھا تھا لیکن پھر بھی باز نہ آتا جو کوئی اس سے کہتا کہ میں تمھاری شادی کروا دیتا ہوں اس کے پیچھے چل پڑتا کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ کسی کے گھر جا کر بغیر تنخوہ کےکام کرنے لگتا اور جب شادی والے وعدہ پر زور دیتا تو وہ دھکے دے کر نکال دیتے ۔ ایک دو دفعہ ایسا بھی ہو کہ کئی ماہ کام کرنے کےبعد تنخواہ کے پیسے اکٹھے کئے اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) کے علاقہ غیر میں چلا گیا بس کسی نے بتا دیا کہ وہاں لوگ پیسے لیکر اپنی بیٹیاں نکاح میں دے دیتے ہیں لیکن پھر وہی دھوکہ اس کا نصیب بنا یعنی جو کچھ لے گیا وہ سب لٹوا کر واپس آجاتا۔

میں اس سے اکثر سوال کرتا کہ تم کیوں ہر دفعہ اپنا نقصان کرواتے ہو اور ہر دفعہ بے وقوف بن جاتے ہو تو کہتا صاحب جی مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اگر کسی کا نکاح نہ ہوا ہو تو اس کا جنازہ جائز نہیں ہوتا ، اور پھر آسمان کی طرف منہ کرکے کہتا کہ اس کملی والے کے پاس تو جانا ہی ہے اگر جنازہ جائز نہ ہوا تو کسی منہ سے جاوُں گا ۔

مجھے ذرا مذاق سوجھتا تو میں کہتا کہ بابا تمھارے پاس جو جنات آتے ہیں ان سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ تمھاری شادی کروادیں تو بڑے اعتماد سے جواب دیتا کہ وہ تو ہر وقت تیار ہوتے ہیں لیکن وہ نوری مخلوق ہیں اور ہم انسان ،ان سے شادی نہیں ہوسکتی اور یہ شرعی مسئلہ بھی اس کے مطابق مولوی صاحب نے ہی بتایا تھا ۔کیونکہ ہماری رہائش شہر میں تھی اور زرعی زمین گاوں میں اور گاوُں میں سیاسی عمل دخل کی وجہ سے لوگ اکثر اپنے کاموں کے سلسلہ میں بڑے بھائی صاحب کے پاس آتے جاتے تھے لہذا جب بھی کوئی آتا تو متھیلا اسے بٹھاتا ، چائے پانی پوچھتا پھر ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیتا لیکن تان آکر اسی بات پر ٹوٹتی کہ اگر اس کی نظر میں کوئی رشتہ ہو تو میرا نکاح کروا دے آنے والا اس کا دل رکھنے کیلئے کہہ دیتا کہ اچھا میں دھیان رکھو گا اگر کوئی ہوا تو ضرور تمھاری بات کروں گا یہ سن کر بابا متھیلا خوشی سے پھولے نہ سماتا اور باورچی خانے میں جاکر اس کے لئے سپیشل چائے اور ساتھ بسکٹ کی پیلٹ لے کر خود آتا ۔

وہ میرے پاس ایسے کتنے ہی آنے والوں کا نام بتاتا جس نے اس سے وعدہ کیا تھا یا کسی نے تو ایک دو رشتے بتائے بھی تھے لیکن پھر پتہ نہیں کیوں انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ضرور بھول گیا ہوگا گھر بسانے کا جنون اس پر کچھ اس طرح سوار تھا کہ جو کوئی بھی اس کے ساتھ وعدہ کرجاتا اس کے ہی گن گانا شروع کردیتا ،لاکھ سمجھاوُ کہ وہ تم سے مذاق کررہا ہوگا اُسےلارے لانے کی عادت ہے پر وہ کبھی ماننے کو تیار نہ ہوتا ، ہاں جس نے اس سے پیسے لئے ہوں اس کو وہ ضرور برا بھلا کہتا پر پھر سوچ کر کہتا کہ ہوسکتا ہے کہ اسے رشتے والوں نے ہاں ہی نہ کی ہو اور ابھی میرے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہوں گے اس خوش فہمی میں بابا اکثر بن ٹھن کر رہتا دھلے ہوئے کپرے پہنے ، بالوں میں نچڑتا ہوا تیل لگائے ، آنکھون میں سرمے کی لمبی لائن لگائے اس کی نگاہیں بار بار ہماری کوٹھی کے بڑے گیت کی جانب اٹھتی رہتیں لیکن نہ کسی کو آنا تھااور نہ کوئی آیا۔

ایک دفعہ وہ کافی عرصہ غائب رہا ہم سمجھے شاید کہیں مر ہی نہ گیا ہو لیکن پھر ایک دن میرے تایا زاد جن کی کوٹھی ہمارے گھر کے ساتھ ہی تھی کے پاس آکر ملازم ہوگیا ۔ عمر بھی اب اس کی کچھ زیادہ ہوگئی تھی اور وہ پہلے سے زیادہ کمزور بھی لگنا شروع ہوگیا تھا لیکن اس کی باتیں اب بھی وہی تھیں جنوں پریوں اور باہر کی شے کے جھوٹے قصے اور وہی نکاح کروانے اور اپنا گھر بسانےکا جنون اور پھر کسی کے دھوکا دینے کا ماجرہ ۔ اس دفعہ معمول کے خلاف وہ ان کے گھر تین سال سے بھی ذیادہ رہا لیکن اب محسوس ہونےلگا کہ اس کی زہنی حالت اب ٹھیک نہیں رہی جو کوئی بھی اجنبی شخص گھر آتا وہ اس سے بلا وجہ لڑنا شروع کردیتا یہاں تک کہ نوبت آئی کہ اس نے ایک دو کو بری طرح مارا اور ڈنڈا لے کر گھر کے ملازموں کو بھی مارنے کو آنے لگا ۔ آخر کار تایا زاد بھائی نے اسے تنخواہ اور کچھ کرایہ کے پیسے دیئے اور کہا اب تم چلے جاو اور دوبارہ کبھی نہ آنا ،بابا متھیلے نے اپنا اٹیچی کیس اٹھایا اور ہمشہ کیلئے واپس نہ آنے کیلئے کوٹھی سے باہر نکل گیا ۔

کچھ عرصہ بعد ایک خط تایا زاد بھائی کو موصول ہوا جس میں ایک شناختی کارڈ جس پر متھیلا ولد نامعلوم لکھا تھا (ان دنوں میں کارڈ نئے نئے بنے تھے اس لئے اس نے اپنے کارڈ پر اس کوٹھی کا پتہ لکھوایا ہوا تھا) اور رقعہ نکلا۔ خط کسی دور کے گاوں کے نمبردار کا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس شخص کی لاش ہمارے گاؤں کے قریب نہر کی پٹری سے ملی تھی حالت اتنی خراب تھی کہ ہم اسے آپ تک نہیں پہنچا سکتے تھے اس لی وہیں گاوُں کے قبرستان میں دفنا دیا ۔ خط کی تحریر سن کر میں سوچتا رہا کہ ناجانے بابا متھیلا کس تکلیف میں لاوارث ہی اس دنیا سے یہ خواہش اپنے دل میں لے کر چلاگیا کہ کاش اس کا جنازہ بھی جائز ہوجائے ۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں