The news is by your side.

روحانی باپ کے ہاتھوں شاگرد کی موت

ہمارے یہاں تعلیمی اداروں کی کئی اقسام ہیں جن میں انتہائی مہنگے سکول جو کہ ڈالروں میں فیس وصول کرتے ہیں سے لےکر مدرسوں تک پر مشتمل ہیں۔ لاہور اسلام آباد اور کراچی کی ڈیفنس برانچوں سے لے کر گاوں کے محلہ سکول میں کوئی بھی والدین اپنی ایک ہی سوچ لےکر بچے کو داخل کرواتے ہیں کہ ان کے بچے کا مسقبل بن جائے وہ اپنی زندگی آرام کے ساتھ گزار سکے۔

اس کے ساتھ وہ اپنے بڑھاپے کا سہارا بننے اور اسے عزت کے ساتھ اس معاشرے میں رہنے کے لیے بھی تیار کرتے ہیں لیکن اپنے بچے کے لئے زندگی کے سہانے خواب اُس وقت ڈھیر ہوجاتے ہیں جب ان کا بچہ کسی استاد کےمتشددانہ رویے کی نظر ہوجاتا ہے وہ استاد جس کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے وہ اپنے ہی روحانی بیٹے کی جان لے لیتا ہے وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ کبھی وہ بھی کسی کا شاگرد تھا اور کل کواس کی اولاد بھی کسی کی شاگرد ہوگی ان کے ساتھ بھی یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اکثر ایسے معاملے میں دیکھا گیا ہے کہ بچہ گھر کا کام کرکے نہیں آیا یا سبق یاد نہیں کیا جس پر استاد یا استانی سیخ پا ہوکر اسے مارنا شروع کردیتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ وہ بچہ کس حد تک ایسے تشدد کو برداشت کرسکتا ہے۔

پاکستان میں ایسے واقعات تسلسل سے پیش آرہے ہیں جس میں بچوں کی جانیں چلی گئیں جبکہ اس تشدد کے نتیجہ میں زخمی ہونے کے واقعات تو عام ہیں جو کہ بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں جان جانے کا ایک تازہ واقعہ حال ہی میں لاہور کے ایک نجی سکول کے استاد کے ہاتھوں ایک دسویں کلاس کے طالب علم کا خون ناحق سامنا آیا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ حافظ قرآن یہ بچہ حنان بلال کسی وجہ سے سکول کا کام نہ کرسکا جس پراستاد نے اس کو مارنا شروع کردیا اس نے بالوں سے پکڑ کر اس بچے کو دیوار سے دے مارا وہ کہتا رہا کہ اس کو سانس نہیں آرہی لیکن درندہ صفت استاد اپنی ساری فرسٹریشن اُس پر نکال رہا تھا یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ دیکھ لیتا کہ کسی ماں کا بیٹا جان کی بازی ہار رہا ہے۔

ہمیں اس تحریر میں یہ دیکھنا ہے کہ آخر استاد کیوں بچوں کو مارتے ہیں؟ اس کی نفسیاتی و معاشرتی وجوہات کیا ہے؟ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس کا جائزہ لیں پہلے آپ کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ بتانا پسند کروں گا یہ میرے اپنے سکول کے دور کی بات ہے ہم ساتویں کلاس میں تھا ایک دن ہمارے سر نے ہمارے ایک کلاس فیلو کواتنا مارا وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اس کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور وہ شکایت کررہا تھا کہ اسے سینے میں شدید درد ہورہا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ استاد صاحب نے معاملے کو بھانپ لیا ، پریشان ہوکر تمام کھڑکی دروازہ بند کروادئے۔ ایک لڑکے کو چپکے سے بھیجا کہ پانی کا گلاس لے کر آئے اور خود لڑکے کی مالش کرنے لگے ۔تھوڑی دیرمیں وہ لڑکا سنبھل گیا لیکن ہم 34 طلبا میں کسی ایک نے بھی نہ گھر والوں کو اور نہ سکول انتظامیہ کو بتایا کہ آج ہماری کلاس میں کیا ہوا حالانکہ وہ ایک پرائیویٹ سکول تھا اور اس کے مالک نے بڑی محنت سے اسے شہر کے اچھے سکولوں فہرست میں شامل کروایا تھا یہ وہ دور تھا جب گورنمنٹ کے سکول کا معیار پرائیویٹ سکولوں کے برابر ہی سمجھا جاتا تھا اگر ہمارے سکول کے مالک کو ذرا سی بھی شکایت ہوجاتی تو اس ٹیچر کی ایک منٹ میں چھٹی ہوجاتی۔

ہم کیونکہ اسٹوڈنٹ تھے لہذا ہم میں سے کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ ہمیں بتانا چاہئے تھا کہ آج ہماری کلاس میں کیا ہوا ہے ، استاد کے خلاف شکایت کرنے کوئی تصور نہ تھا یہاں اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ گو آج مہنگے انگلش میڈیم سکولوں میں تو مغربی نظام تعلیم کے تحت ماحول بدل چکا ہے لیکن اردو میڈیم کم فیس والے اور گورنمنٹ سکولوں میں ماحول وہی پرانا چلا آرہا ہے وہی استاد کی سخت شخصیت وہی بچوں کا چپ چاپ استاد کی ہر جائز ناجائز بات برداشت کر جانا اار وہی استاد کا چھڑی کو تیل لگا کر کلاس روم میں رکھنا ۔

آئیں اب ہم اس جانب آتے ہیں کہ بچے والدین یا سکول انظامیہ کو کیوں نہیں بتاتے اور ایک ستاد کیوں تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچے اور استاد معاشرے کے کس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں معاشرہ میں تین طبقات ہوتے ہیں اپر، مڈل اور لوئرکلاس لیکن ان میں مڈل کلاس کو پھر تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے مڈل اپر کلاس جو معاشی طور پر خوشحال تو ہوتے ہین لیکن رہن سہن اقتدار مذہب کا احترام اور رسم رواج مڈل کلاس جیسا ہی ہوتا ہے مڈل کلاس کی دوسری قسم مڈل مڈل کلاس ہوتی ہے جو کہ معاشرے کی اصل جان ہوتے یہ نسبتاً کم آمدنی والے لوگ ہوتے ہیں اور محلوں یا گنجان آباد علاقوں میں رہتے ہیں اس کے بعد لوئر مڈل کلاس کی باری آتی ہے یہ طبقہ غربت کی لیکر سے کچھ ہی اوہر ہوتا ہے لیکن رہن سہن میں اپرمڈل کلاس کی تقلید کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اکثر مقروض ہوتا ہے کرایہ یا بہت چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں ایسے واقعات جن طلبا کے ساتھ پیش آتے ہیں اورجو اساتزہ اس میں ملوث ہوتے ہیں ان کا تعلق اسی مڈل کلاس اور ٹیچرز کا تعلق زیادہ تر لوئر مڈل کلاس سے ہوتا ہے۔

یہ سکول پرانے نظام تعلیم کے تحت چلائے جارہے ہیں یہاں پڑھنے والے بچے کو گھر سے ہی یہ بتا کر بھیجا جاتا ہے کہ سکول میں استاد ایک ایسا شخص ہے جس کی آپ نے ہرصورت میں اطاعت کرنی ہے گھر ہی وہ پہلا مکتب ہوتا ہے جہاں بچے کی شخصیت کا آغاز ہوتا ہے اسی گھر میں بچے کو استاد کا شاگرد بنانے کی بجائے استاد کا غلام بنانے کی ابتدا ہوجاتی ہے اس کے دل میں استاد کے احترام کی بجائے خوف ڈالنا شروع کردیا جاتا ہے اکثر ایسے ایسے قصے سنائیں جاتے ہیں کہ فلاں استاد نے مجھے اس طرح مارا یا ہم مار کھا لیتے تھے لیکن اف نہیں کرتے تھے ہماری جرات نہیں ہوتی تھی کہ ٹیچر کے سامنے چوں بھی کریں غرض ایسے کئی جملے بچے میں دو قسم کے رحجان پیدا کرتے ہیں ایک استاد ایک خوفناک چیز ہے اور دوسرا یہ کہ وہ جو کہتا ہے صحیح کہتا ہےاس کی کوئی بات گھر آکر نہیں بتانی۔

ہمارے معاشرے میں پرانے زمانے سے ایک مثال دی جاتی رہی ہے کہ والدین اپنے بچے کو استاد کے پاس چھوڑنے جاتے تو کہتے کہ بچہ ہمارا اور چمڑی تمھاری یعنی بچے کا پہلا تعارف اپنے استاد سے یہ ہی کروایا جاتا ہے کہ وہ جس طرح چاہئے اسے مار سکتا ہے اور اسے یہ حق حاصل نہیں کہ گھر آکر اپنے والدین کو بتائے ایسی صورت میں اگر کوئی بچہ گھر آکر شکایت بھی کرتا ہے تو اُسی کا قصور نکال کر اس کو برا بھلا یہاں تک کہ مارا بھی جاتا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے دونوں جانب سے تنگ آکر سکول سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں اور جرائم پیشہ یا نشہ کرنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

اب ذرا اس پر بھی بحث کرلیتے ہیں کہ ایک ہی کلاس میں پڑھنے والے بچوں میں کوئی بچہ سخت سخت سے استاد د کی مار بھی برداشت کرلیتے ہیں اور کچھ ایک چھڑی یا جھاڑ سے بھی خوفزدہ ہوجاتے ہے اس کے پیچھے بچے کی پرورش کا کا دخل ہوتا ہے اگر گھر کا ماحول سخت ہو ماں باپ سخت گیر اور بچے کی مار پیٹ کرتے ہوں اور آپس اور رشتے دار محلے میں بھی جھگڑالو تو بچہ سختی کا عادی ہوتا ہے اور استاد کی ڈانٹ ڈپٹ کو ذہن پر نہیں لیتا جبکہ وہ بچے جن کی پرورش بڑے پیار سے کی گئی ہوتی ہے ان کیلئے استاد کا اونچا بولنا بھی کسی خوفناک دھچکے سے کم نہیں ہوتا اور ایسے بچے جب کسی خوفناک استاد کے تشدد کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ نہ صرف ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر ہوتے ہیں بلکہ احساس ندامت کا بھی شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ جس معاشرتی بیک گراونڈ سے آئے ہوتے ہیں اس میں استاد کے غلط ہونے کا تصور ہی نہیں ہوتا۔

اس طرح ہمارے ہاں ایک مسئلہ اور ہے کہ بچے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں ہر والدین یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ فرسٹ آئے ۔ لہذا وہ ٹیچر کو بھی کہتے ہیں جو مرضی کرو لیکن بچے کی اول پوزیشن آنی چاہئے جس پر ٹیچر اور شیر ہوجاتا ہے جبکہ بچے کہ ذہنی صلاحیت اتنی نہیں ہوتی کہ وہ کوئی پوزیشن لے سکے۔ دوسری طرف ان سکولوں کا بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے کہ ہر سکول یہ چاہتا ہے کہ اس کا رزلٹ اچھا آئے خاص طور پر بورڈ کے امتحانات میں جس کا مقصد سکول کی کارکردگی دکھانا ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ والدین اپنے بچوں کو ان کے سکول میں داخل کروائیں اور انہیں زیادہ بزنس مل سکے اس لئے استاد کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے کہ جس طرح بھی ہو رزلٹ ٹھیک آنا چاہئے چاہئے جتنا مرضی مارو جو مرضی سزا دو ٹیچر کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر رزلٹ اچھا نہ آیا تو آپ کو فارغ کردیا جائے گا ان حالات میں صرف ٹیچر کو ایسے واقعات کا اکیلا ذمہ دارٹھہرانا بھی جائز نہیں بلکہ جس سکول میں ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو فوری طور پر اسے سیل کرکے مالکان یا ہیڈماسٹر کے خلاف بھی کاروائی ہونی چا ہئے ۔

جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ اکثراساتذہ جو اوپر بیان کردہ اداروں میں پڑھانے ان کا تعلق زیادہ تر اسی مڈل کلاس بلکہ لوئر مڈل کلاس سے ہوتا ہے وہ بہت مشکل حالات میں اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں اور نوکری کیلئے سرکاری دفتروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں ان میں زیادہ تر ایوریج آئی کیو رکھنے والے نوجوان ہوتے ہیں جب نوکری نہیں ملتی تو یہ کسی پرائیویٹ سکول میں کسی بھی تنخواہ پر نوکری کر لیتے ہیں اپنی گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے یہ سکول کے بعد گھروں میں یا ٹیوشن سنٹروں میں پارٹ ٹائم جاب بھی کرتے ہیں گھر والوں کی جانب سے بھی ان پر پریشر ہوتا ہے کہ وہ ان کی مالی ضروریات پوری کرے ان حالات میں یہ اکثر سخت گیر اور فرسٹریشن کا شکار ہوتے ہیں۔

یہ استاد چھوٹی سے بات پر بھی اپنے شاگردوں پراپنی فرسٹریشن نکال لیتے ہیں ان کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے اُس کے شاگرد نے کسی کو نہیں بتانا اور اگر بتائیں گے بھی تو کوئی ان پر یقین نہیں کرے گا یہاں میں ہر گزکسی استاد کی وکالت نہیں کررہا کہ اُس کا تشدد کرنا جائز ہیں بلکہ صرف ان کے معاشی اور معاشرتی حالات بتانا مقصود ہیں ۔ ان کو کسی طور پر بھی یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ کسی بچے پر ہاتھ اٹھائیں بلکہ اس حد تک چلے جائیں کہ بچے کی جان ہی چلی جائے یہاں بڑی حد تک قصور سکول انتظامیہ کا بھی ہے کہ وہ اس چیز کو واچ کریں کہ کوئی ٹیچر کس قسم کی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے لیکن ہمارے ہاں تو ماہر نفسیات کو کبھی کوئی حیثیت دی ہی نہیں گئی اور یہ مضمون بے مقصد سا ہو کر رہ گیا ہے وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ سکول انتظامیہ کسی ماہر نفسیات کو ہائر کرلیں جو ناصرف اساتذہ بلکہ طالب علموں کے ساتھ بھی کونسلنگ کرتا رہے ۔ جس سے ایسے کسی حادثہ سے پہلے ہی اس کی روک تھام ہوسکے ۔

میں نے اپنی اس تحریر میں کوشش کی ہے کہ سکول اساتذہ کے ہاتھوں ماؤں کے جگر گوشوں کے مارے جانے اور تشدد کے پیچھے کیا حقائق ہوتے ہیں اور یہ حکومت قانون ساز اداروں نیز تعلیمی اداروں و والدین اور اساتذہ کی تربیت پر بھی منحصر ہے کہ وہ کیسے ان واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرتے ہیں لیکن جن سے یہ جرم سرزد ہوچکا ہے ان کو قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنانا اس لئے ضروی ہے کہ آئندہ کوئی روحانی باپ اپنے کسی شاگرد کی جان لے کراس کے اصل ماں باپ کواس کے لخت جگر سے محروم نہ کرسکے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں