فیس بک کو اسکرول کر تے کر تے میری نظر ایک ایسی تصویر پر پڑی جو کسی قبر ستا ن کی تھی اوراس میں ایک قبر کے کتبے کو فوکس کیا گیا تھا جیسے ہی میں نے اس تصویر پر ماؤس کے ایرو کو کلک کیا تو یہ تصویر بڑی ہوکر میری 21 انچ کی سکرین پر پھیل گئی ۔یہ کتبہ کیا تھا ایک پوری کہا نی تھی جو لمحوں میں میرے ذہن میں گھوم گئی، ابتدا ء سے آخر تک پوری کہا نی کا آغاز و انجام میرے سا منے تھا یہ بے انصا فی اور معا شرتی بے حسی کی ایک منہ بو لتی تصویر تھی ۔ ایسی کسی لڑکی کی قبر کا کتبہ جو ایک نئی زندگی کو اس دنیا میں لا تے لا تے خو د کسی کی ہوس زر، لا پرواہی اور فر ض سے غفلت کا شکا ر ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔
آئیں آپ کو مزید تجسس میں ڈالے بغیر کتبے کی تحریر کی طرف آتے ہیں ۔ کتبے کے اُوپر اور اطرا ف میں جیسا کہ ہو تا ہے کہ محرابی شکل کے سب سے اوپر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور نیچے کلمہ طیبہ کندہ تھا دا ئیں جا نب ” یا اللہ ” اور با ئیں جا نب “محمدﷺ” کے نا م ِ مبا رک تحریر تھے اس کے نیچے محرا ب کی شکل میں دو دفعہ درود شریف پتھر میں کندہ کر کے تحریر کیا گیا تھا اور اس کے درمیان قبر میں دفن مرحومہ کی پو ری تفصیل درج تھی جو کہ کچھ اس طرح تھی ” چ ۔ نعیم ” ذوجہ ” م ۔ نعیم۔ س ۔” پیدا ئش یکم جنوری1987لیکن اس کے آگے جوسرخ رنگ میں لکھی تحریر تھی وہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مزار یا قبر پر نہیں دیکھی جو کہ کچھ یو ں تھی ۔ ” تا ریخِ قتل 3اپریل2013تاریخ تدفین 4اپریل بروز بدھ 2013اورآخر میں جو تحریر تھا وہ سب سے زیادہ ششدر کر دینے والا تھا لکھا تھا نام قاتلہ “لیڈی ڈاکٹر ن۔ش۔چوہدری” اس تصویر کو پوسٹ کرنے والے نے تصویر کے اوپر ایک تحریر بھی لکھی تھی کے چند پیسوں کی لالچ میں کیس خراب کر کے لڑ کیوں کو قتل کر نے والی گائنی ڈاکٹرز اس تحریر کو ضرور پڑھیں ۔
اس سے پہلےکہ مزید کوئی نتیجہ اخذ کریں سب سے پہلے ہم خود اس تصویر کا تجزیہ کر لیتے ہیں آیا کہیں یہ ایڈیٹڈ تونہیں ،فوٹو شاپ یا کسی دوسرے پروگرام سے اس میں کوئی ردوبدل تو نہیں کیا گیا اس تصویر کو میں نے جتنے بھی کمپیوٹر پروگرامزمیں کھول کر دیکھا مجھے کہیں سے بھی ایڈیٹڈ ہوئی نہیں لگی (باقی ماہرین اس پر مزید ریسر چ کرسکتے ہیں) اس قبر کے پچھلی جانب جو قبریں تھیں ان کے کتبے بھی صاف نظر آرہے تھے اور صاف پتا چل رہا تھا کہ یہ تصویر اصل ہے پھر میں نے اس تصویر کو جانچنے کا ایک اور طریقہ نکالا تصویر کو فیس بک پر اپلوڈ کیا اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ اگر کوئی اس قبر کے متعلق جانتا ہو تو کمنٹس کرے ۔
ابھی مجھے اس کوپوسٹ کیے کچھ منٹ ہی ہوئے تھے کہ کسی صاحب نےاس کے نیچے رومن رسم الخط میں “ر ۔کینٹ” لکھ دیا کچھ اور کمنٹس بھی ،آئے تاہم وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ قبر کہاں پر ہے کتبے پر لکھی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکی کی عمر 26سال تھی اور ہوسکتا ہے کہ دو تین سال پہلے ہی اس کی شادی ہوئی ہو یہ تو معلوم نہیں کہ پہلے بھی کوئی بچہ تھا یا جس بچے کی وجہ سے وہ اس لیڈی ڈاکٹر کے ہتھے چڑ ھ گئی کیا وہ زندہ ہے یا نہیں لیکن اس کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس لڑکی کا خاوند یا کوئی دوسرا باپ بھائی وغیرہ اس دکھ کو بھلا نہ سکا اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ریاست معاشرہ اور بےحس ادارے اس کو انصاف نہ دلواسکے، اس کے قتل کی تاریخ لکھوانا اور پھر مبینہ طور پر اس ڈاکٹر قاتلہ کا نام لکھوانا بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ بے بس انسان اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو سنگِ مرمر کے اس کتبہ پر ہمیشہ کے لیے رقم کر گیا ۔
اسے انصاف ملتا بھی کیسے کہ یہ معاشرہ انسانوں کا کم اور جنگلی درندوں کا مسکن زیادہ نظر آتا ہے جہاں وہ غول در غول پھرتے ہیں ان درندوں کا اپنا اپنا مافیا ہے جو ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے “چ ” کے اس کیس میں سب سے پہلے ڈاکٹرز کا مافیا سرگرم ہوگیا ہوگا لیڈٖی ڈاکٹر کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے۔ ہر ایک نے غلطی مرحومہ “چ”یا اس کے گھر والوں کی نکالی ہو گی وقت پر ہسپتال نہیں آئے ہوں گے، زچہ و بچہ کی خورا ک اور دوائی کا خیال نہیں رکھا ہو گا۔ گھر والے کام کرواتے ہوں گے ،ہوسکتا ہے کہ کوئی خاندانی مرض ہو غرض جتنے ڈاکٹر اتنے ہی ملزمہ کے حق میں دلائل جب کہ کتبے کی کہانی تو بالکل الٹ نظر آرہی ہے اگر گھر والے خاوند ساس سسر باپ بھائی بہن اتنا خیال نہ کرتے تو وہ ڈاکٹر اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو اس طرح قبر پر لکھ کر دنیا کو نہ دکھاتے جیسا کہ یہ کہہ کر ہر ایک کو خاموش کردیا جاتا ہے کہ خدا کی یہی مرضی تھی تو کوئی کیا کر سکتا ہے ۔
اسی طرح ایک اور مافیا نہ انصانی کے اس جنگل کو اس بری طرح اپنا مسکن بنائے ہوئے ہے کہ کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا اور یہ مافیا ہے دولت مند اشرافیہ کا جس کے پاس بے پنا ہ پیسا ہےوہ ہر شے کی ایک قیمت لگاتے ہیں اور خرید لیتے ہیں۔ انصاف تو ان کے گھر کی باندی ہے پیسا کم یا نہ دینا ہو تو سفارش موجود ہے اور اسی طرح اگر مڈل کلاس میں چلے جائیں تو چھوٹے پیمانے پر ہی سہی سارا محلہ مظلوم کے مقابلے میں ظالم کے ساتھ چل پڑتا ہے اور انصاف کےبجائے ظلم کا نشانہ بننےوالےکو صبر اور معاف کر دو کا درس دینا شروع کردیتا ہے۔
بے انصافی کے اس جنگل میں تیسرے قسم کے بھیڑے نما غول قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کا ہے جو کہ ہر سائل کواوپر سے لے کر نیچے تک ایسے دیکھتے ہیں کے اسے کہاں کہاں سے نوچنا ہے ملزم ہو یا ملزوم ان کے قریب ان کو جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہےکہ کون کتنی رشوت دے سکتا ہے انصاف کے لیےعدالتوں کا رخ کیا ہوگا تو وہاں ایک علیحدہ مافیاموجود ہے جو عدالت میں فیس لینے کے باوجود بھی مقدمے کی پیروی کی ہر تاریخ پہ سائل کی جیب کی طرف دیکھتا ہے اور بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے ہ مدعی کی کم اور ملزم کی وکالت زیادہ کر رہا ہے ۔
اب جب اتنے سارے مافیا معاشرے پر قابض ہوں تو پھراس مظلوم لڑکی کو کیا انصاف ملا ہوگا اور لوحقین کی داد رسی کس نے کی ہوگی ؟۔مجبوراً ان کے پاس ایک ہی حل رہ گیا ہوگا کہ قبر کے اس کتبے پر ملزمہ کا نام کند کروا دیا جائے کہ تا قیامت کوئی اس کو مٹا نا سکے اور بروز قیامت خدا کے رو برو فیصلہ ہو تو ثبوت کے طور پر یہ کتبہ بھی پیش باری تعالی ہو ۔