کاش میں یہاں لکھتے ہوئے میں بہترین قسم کی پنجابی گالیاں لکھ سکتی ، جو میں خود سمیت ساری پاکستانی قوم کو دینا چاہتی ہوں، اتنے بے حس اتنے بے تعلق ، کون ہیں ہم ، کیا پہچان ہے ہماری ؟ ایک لالچی اور نکمی قوم ، جو خود اپنے آپ کو کلہاڑی مار کر کہتی ہے ، کہ سارا قصور امریکا کا ہے اور زخم کو چٹوانے کے لئے امریکی نمائندوں یعنی سیاست دانوں کو موقع دیتی ہے اور سیاست دان زخم پر نمک مرچ چھڑک کر اس میں پٹرول ڈال کر آگ لگا دیتے ہیں ، اور عوام بلبلاتی ہے ، مگر مشکل کشا کو ووٹ ضرور دیتی ہے ، ان کے جلسے میں زور شور سے نعرے لگاتی ہے ، ان کی شہادت پر آنسو بہاتی ہے ۔
بجلی نہیں ہے کوئی بات نھیں ، جب تک نہیں آتی ہم نے رولا ڈالنا ہے اور اس کے آتے ہی ایسے بن جانا ہے جیسے بجلی کبھی گئی ہی نہیں، کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہو گئیں ہیں تو کیا ہوا؟ بازار میں رش اتنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مفت میں سب بٹ رہا ہے ، گیس نہیں کوئی بات نہیں ، ہسپتال میں دوائیں نہیں کوئی بات نہیں ، اچھا ہے لوگ مریں گے تو آبادی کم ہو گی۔
آبادی کم کرنے کے لئے دہشت گردوں کو ٹھیکہ دیا گیا ہے ، مگر وہ بھی بے چارے کیا کریں، کہاں بم پھوڑیں کہاں نہ پھوڑیں سمجھ نہیں آتا ، ٹارگٹ کلنگ بھی اچھا طریقہ ہے مگر ، وہ بھی اب پرانا ہو چکا ، فرقہ واریت میں تو ہم پہلے ہی خود کفیل ہیں ، کافروں کو مار مار کر ہم نے ریکارڈ قائم کئے ہیں ، مگر کافر بھی کیسے ، جو کلمہ گو ہوتے ہیں ، اصلی کافر تو ہمارے مائی باپ ہیں ، کوئی انہیں چھو کر تو دیکھے ، ہم اٹھا کر انہیں کی جیلوں میں ڈلوا دیں گے۔
جو لوگ امیر ہیں ، انہیں کبھی بھی غریب نہیں ہونا، کیونکہ وہ اللہ کی رحمت سے نہیں اپنی محنت سے دولت مند ہیں ، اگر کسی کو موقع نہیں ملا تو ا س کی قسمت اور غریب کو تو ویسے بھی مر جانا چاہیے ، بلکہ مار دینا چاہیے ، ان کے گھروں کو بلڈوز کر کے وہاں فارم بنانے چاہیے اور ان کی لاشیں بھی وہیں دبانی چاہیے تا کہ اچھی کھاد بن سکے ، ویسے بھی خون سے سینچنا پڑتا ہے باغوں کو۔
جو کوئی نوکری کر رہے ہیں ان کی اپنی قابلیت ہے ، جو نہیں کر سکتے ان کو اللہ کا عذاب ہے ، وہ چاہے ہزار سال کا تجربہ رکھتے ہوں، ڈگریوں کی لائن ہو ، مگر کوئی سفارش نہ ہو تو اسے زندہ رہنے کا ہی حق نہیں کہ وہ کوئی نوکری کرے ، حق تو تاجر کا ہے ، کہ وہ اپنے نفع کو قائم رکھے چاہے اس کے لیے اجناس کی قیمتوں کو سونے کے بھاؤ تک کیوں نہ لانا ہو، سونے پر یاد آیا ، کہ اب جو لڑکی جہیز میں سونا نہیں لاتی وہ منحوس ہے ، چنڈال ہے ، عورت ہمارے معاشرے میں کیا ہے ؟ ، ایک ایسا کردار جو خود ہی خریدار ہے اور خود ہی دوکاندار ، ماں باپ لڑکیوں کو بوجھ جانتے ہیں مگر یہ بوجھ سونے کی ڈولی میں اتارنا چاہتے ہیں ، اور مرد ہیں کہ انہیں زندگی میں دکھ سکھ کا ساتھی نہیں چاہیے ، ایک جادو کی چھڑی چاہیے جو ان کی آرام دہ زندگی کو مزید آرام دہ بنا دے ، جو لڑکیاں بیٹھی ہیں ان کی اپنی غلطی ہے اور جو مرد ہیں وہ تو دس افراد کے کنبے کے واحد کفیل ہیں ، اب ایک اور کو لا کر اس کی کفالت کو آگ لگانی ہے کیا۔
طالب علم کو علم نہیں بلکہ چھوکری چاہئیے یا چھوکرا چاہئیے ، موبائیل چاہئیے ، ایک بائیک چاہئیے ، جس پر ون ویلنگ کر کہ زندگی کے مزے لوٹیں ، دن رات باتیں کریں ، تاکہ عمل سے زندگی جنت و جہنم والا فارمولا غلط ثابت ہو جائے ، سب غلط ہے میاں ، استاد غلط ، ماں باپ غلط، بہن بھائی غلط، دوست غلط ، حکمران غلط، عوام غلط ، ارے کون غلط نہیں ہے ، ہم سب غلط ہیں ، ہم وہ ہیں کہ ہمیں کہا جائے کہ تمہاری ’پوپو‘ سے درخت نکلا ہے ، تو ہم کہیں گے ، اچھا ہے چھاؤں ملے گی پھل ملے گا ۔ ۔ ۔۔ عزت سے مجھے کیا ، مجھے دن بھر ذلیل کرو مگر چند سکے مجھے دے دو ، میں ایک روٹی کے بدلے اپنا جسم کیا ، اپنی دھرتی ماں کو بیچ سکتا ہوں۔
میں نے بات شروع کی تھی گالیوں سے ، گالی کوئی کب دیتا ہے ، جب وہ بے بس ہو جاتا ہے ، اور میرے خیال میں اب میں اور میری قوم بے بس ہو چکی ہے ، مجھے انتظار ہے اس وقت کا جب ، ہم ایک دوسرے کو نوچ نوچ کر کھائیں گے ، اور سوچیں گے ، چلو آج کے دن تو پیٹ کا دوزخ بھرا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ویسے میرے بھائی کا گوشت ہے بہت لذیز ، ہو سکتا ہے وہ اگر مجھے کھاتا تو ایسے ہی سوچتا ، چلو چھوڑو یار ، اپنی جان بچاؤ ، کہ تمہارا گوشت بھی تو مزے کا ہے ، کل بھوک کے مارے میں نے تو اپنا ہی بازو بھنبھوڑ دیا تھا ۔