وہ سامنے کھڑی تھی، پھٹے ہوئے بلاؤز اور میلی سی اسکرٹ پہنے ہوئے، مگر اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ ابھی وہ کمسن تھی، مگر اس کے ہونٹوں پر لگی گہری لپ اسٹک نے مجھے روک لیا۔
میں نے اپنے دل میں اس سے سوال کیا، تم کیا چاہتی ہو؟ مگر اس سوال کے جواب میں، اپنے معصوم ہاتھوں سے اس نے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔ وہ کوری تختی کی طرح بالکل صاف ، آنکھوں میں چھپے آنسووں کی طرح شفاف تھی، حیران کردینے والے جذبات سے بہت دور، اپنے ہاتھوں میں تھامی ہوئی گڑیا کی طرح چپ!میں اپنے راستے کی طرف آگے بڑھ گئی، مگر ابھی تک میرے اندر مختلف جذبات کے درمیا ن سرد و گرم چل رہی تھی۔
اخبارات کی کئی سرخیاں، کٹی پھٹی لاشوں کی صورت میرے سامنے گر رہی تھیں، اس سب لاشوں کے درمیاں اس بچی کی بھی لاش تھی، جو گھر سے جِم کے لئے نکلی تھی تو ایک سیاہ ہاتھ نے اسے اندھیرے کی طرف دھکیل دیا تھا ، خواہشوں کے بھوکے جنگل میں دور تک اس کے معصوم جسم کوگھسیٹا جاتا رہا، یہاں تک کے اس کی آنکھوں میں روشن تمام ستارے ایک ایک کر کے بجھ گئے تو اس کےمعصوم بے روح جسم کو کانٹوں کی طرف اچھال دیا۔
دکھ اور درد سے بھر ے دل کے ساتھ آگے بڑھتی رہی کیونکہ اس کی روح کے زخم کو میں بہتر سمجھ سکتی تھی، میں بھی سیاہ ہاتھوں سے کئی بار اندھیروں میں دھکیلی گئی تھی۔