The news is by your side.

طلبہ یونینز پر پابندی کا خاتمہ کب ہوگا؟

سید عزیر احمدبخاری


یوں تو پاکستانی میڈیا پر دن میں کئی بار دستور و قانون کی بالا دستی اور جمہوریت جمہوریت کی گردان سننے کو ملتی ہے اور اس عمل میں لبرل سیاسی جماعتیں ہوں،مذہبی یا قوم پرست جماعتیں، بیروکریٹس ہوں یا ریٹا ئرڈ اور حاضر سروس جرنیل سبھی اس رٹے رٹائے سبق کو دہراتے نظر آتے ہیں۔ ہر مسئلہ کا حل جمہوریت کو بتایا جاتا ہے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ ملک کے نوجوانوں بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے فرائض کو سمجھ کر ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کا کہا جاتا ہے مگر اسی جمہوریت اور جمہوری عمل کے ایک لازمی اور انتہائی اہم جزو کی طرف شائد ہی کسی کا دھیان جاتا ہو۔

دستور پاکستان کی شق ۷۱(۱) ہر شہری کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی انجمن یا یونین بنائے جو قانون کے مطابق عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہو۔آج آپ کو تاجروں، وکیلوں، ڈاکٹروں، صحافیوں، اساتذہ، صنعتکاروں، ریٹائرڈفوجی جرنیلوں، یہاں تک کہ ریڑھی بانوں تک کی یونین نظر آئے گی مگر نظر نہیں آئے گی تو صرف اور صرف طلبہ یونین نظر نہیں آئے گی۔طلبہ یونین کا کردار ملکی ترقی و سیاست میں بہت اہم رہا ہے، حقیقی قیادت فراہم کرنے میں طلبہ یونین نے ایک نرسری کا کردار ادا کیا اور ملکی سیاست کو درخشندہ ستارے دیے۔

۸۰ کی دہائی میں ایک آمر نے جہاں تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی وہیں طلبہ یونین پر بھی پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔26 اپریل 1983 کو صوبہ سرحد، 31جنوری1984 کو اسلام آباد، 9فروری 1984کو پنجاب، 11فروری 1984کوصوبہ سندھ کی طلبہ یونینز پر پابندیاں عائد کر دی گئیں اور یہ پابندی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی منتخب یونینز پر ہی نہیں بلکہ طلبہ تنظیموں پر بھی عائد کر دی گئی جس کے نتیجے میں ملک بھر میں طلبہ تنظیمات کیے دفاتر سیل کر دئے گئے۔

طلبہ یونینز پر پابندی کو تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران آمریت کے ساتھ ساتھ صاحبان اقتدار نے جمہوریت کے مزے بھی لوٹے مگرطلبہ یونین پر پابندی برقرار رہی۔

انجمن طلبہ اسلام طلبہ یونینز پر عائد اس پابندی کے خلاف ہر سال ۹ فروری کو ملک بھر میں’یوم حقوق طلبہ’ کے طور پہ مناتی ہے۔ انجمن طلبہ اسلام نے اس آمرانہ پابندی کو کبھی بھی قبول نہیں کیا، انجمن نے اس پابندی کے خلاف بھرپور جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے کارکنان انجمن کو تعلیمی اداروں سے خارج بھی کیا گیا اور کئی مرتبہ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں۔طلبہ یونینز کے خلاف انجمن نے اپنا پہلا یوم احتجاج 5 فروری 1985 کو منایااور اس کے بعد سے آج تک اس پابندی کے خلاف سرگرم عمل ہے۔

17جنوری 1988 کو جناح ہال لاہور میں انجمن کے زیر اہتمام تعلیمی امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریٹائرڈ جسٹس انوارالحق نے حکومت پر زور دیا کہ طلبہ یونینز پر عائد پابندیاں فی الفور ختم کی جائیں تا کہ طلبہ تعلیمی اداروں میں اپنی پسند کے نمائندے منتخب کر کے اپنے مسائل حل کر سکیں۔2دسمبر1988کو نو منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے طلبہ یونینزپر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تو اس وقت کے وزیر اعلٰی پنجاب نواز شریف نے 9مارچ1989کوپنجاب کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات کروائے جس کے نتائج کے مطابق انجمن طلباء اسلام نے “155” سے زائد تعلیمی اداروں میں کامیابی حاصل کر کے اول پوزیشن حاصل کی (ڈیلی ڈان، کراچی 10 مارچ 1989) ۔جبکہ کسی بھی اور صوبہ میں انتخابات کروائے ہی نہیں گئے اور اس کے بعد سے آج تک طلبہ یونین کے انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔

اپریل 1993 میں چیف جسٹس افضل صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل طلبہ یونین پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ لکھا جسے ۱۲ جولائی ۱۹۹۸ کو جاری کیا گیا ۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ نمبری ۱۷۸۱ حکم دیا کے فور۱ً طلبہ یونین بحال کی جائیں اور تمام تعلیمی اداروں میں انتخابات کروائے جائیں مگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود نہ تو کہیں طلبہ یونین کے انتخابات منعقد ہوئے اور نہ ہی طلبہ سے جبری حلف نامے بھروانے کا سلسلہ بند ہوا ہے اور تاحال حکومتیں توہینِ عدالت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔بعد ازاں ۱۳ جولائی ۱۹۹۶ کو جناح ہال لاہور میں منعقدہ انجمن کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں ریٹائرڈ چیف جسٹس پاکستان نسیم حسن شاہ نے بھی پابندی کو توہین عدالت قرار دیا۔

پرویز مشرف کےدور کے اختتام پر جمہوری وزیر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبا یونین بہالی کا اعلان کیا مگر یہ اعلان محض اعلان ہی رہا۔ ۲۳ اگست ۲۰۱۷ کو انجمن طلبا اسلام کی کوششوں سے پاکستان کے ایوانِ بالا نے قرارداد نمبر ۳۳۱ میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے تناظر میں طلبہ یونین کی بحالی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے مگر سینٹ میں یہ قرارداد پیش کرنے والے ن لیگ کے سینیٹر راجہ ظفر الحق اپنی جماعت کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود اس قرارداد کو اسمبلی میں پیش نہ کروا سکے ۔

طلبہ یونین پر پابندی کا جہاں اک نقصان یہ ہوا ہے کہ ملکی سیاست میں متحرک ، پڑھی لکھی نوجوان قیادت کے آگے آنے کی بجائے صنعتکاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں، وڈیروں اور سابق جرنیلوں کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے وہیں پہ تعلیمی ادارے اب میدان جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگے ہیں۔ ہاسٹلز میں سے تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود دہشت گرد اور دہشت گردانہ مواد برآمد ہونا اور اسلحہ کے ڈھیر لگنا معمول بن گیا ہے۔ طلبہ یونین پہ پابندی کے بعد ایسا تشدد ہوا اور ایسے جرائم پروان چڑھے جن کا طلبہ یونین کے دور میں تصور بھی نہیں تھا۔ جب کہ دوسری طرف طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے جہاں تعلیمی ادارے منشیات کے اڈے بن چکے ہیں اور ان میں مثبت سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں وہیں نجی تعلیمی ادارے لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر طلبہ تنظیمیں انجمن طلبا اسلام کے ساتھ مل کر طلبہ یونین کے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے دوسر ی طرف اربابِ اختیار کو بھی چائیے کہ طلبہ کو ان کا دستوری اور جمہوری حق دے کر دستور پاکستان کی شق ۱۷(۱) ، عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ آج بھی اگر طلبہ یونین کے انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو انجمن طلبہ اسلام ان میں بھر پور حصہ لے کر اپنی شاندار روایات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں واضح برتری حاصل کرے گی۔

 

شاید آپ یہ بھی پسند کریں