کرن مہک
بےحسی کو ہم ایسے مرض کا نام دے سکتے ہیں جو اگر کسی معاشرے میں سرائیت کر جائے تو وہ معاشرہ ذہنی اور اخلاقی موت خود ہی مرجاتا ہے ۔ موت جو درحقیقت ایک رہائی کا نام ہے اس رہائی سے قبل ایک انسان اپنی زندگی میں بار بارجیتا اور مرتا ہے ۔ کبھی اپنوں کے لیے اور کبھی اپنے پن کے احساس کے لیے ۔ ایک بااصول انسان تا حیات بامقصد اور باعزت حیات کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا ہے ۔
بےحس انسانی رویے حساس انسان کو ہمیشہ ذہنی کوفت اور ذہنی اذیت کا شکار رکھتے ہیں ۔ جس کے باعث ڈپریشن اس کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے ۔ بےحس روہے انسان کو کتنی بار مرنے کے لئے اکساتے ہیں ۔ انسان کی ذات کو کتنی بار ریزہ ریزہ بکھیر دیتے ہیں ۔ خاص طور پے ایک حساس اور فکری سوچ کے حامل فرد کے لئے جو انسانیت کا علمبردار ہو
جسے انسان سے لے کر کائںات کی ہر تخلیق سے محبت ہو ۔ جو زندگی کے ہر مکر و فریب سے نفرت کرتا ہو ۔۔ جس کے لئے زندگی کا ہر رنگ خوبصورت اور دلفریب ہو ۔ جو ہر مزاج اور رنگ میں نفاست چاہتا ہو ۔ اسے لوگوں سے بھی اسی روہے کی امید ہوتی ہے ۔
ہر شخص حساس ہے فقط اپنی ذات تک ۔اس کا دکھ دنیا کا عظیم ترین ہے ،ہمارے سماجی رویے دیکھ لیں ۔ہر شخص کو جلدی ہے ۔ ٹریفک کے قوانین کو توڑ کر گزر جانے کی ، ہجوم کو چیر کر آگے نکل جانے کی اسپتال کی لائن سے لے کر ائیر پورٹ میں کھڑے جہاز کی لائن تک ۔ سب کو جلدی ہے کہ ہم پہلے اپنی منزل تک پہنچ جائیں ۔ ہمارا کام ہمارا مسئلہ پہلے حل ہوجائے ۔ ہر انسان دوسرے سے آگے بھاگنے میں مصروف عمل ہے ۔
ہر قیمت میں ہر حال میں ۔ چاہے وہ خود اس قابل نہ ہو ۔ مگر سوال یہ ہے کہ جلدی کیا ہے ؟؟؟؟ ۔۔۔ کیا قابلیت الہ دین کا چراغ ہے جو خوشامد چاپلوسی اور رشوت کے عوض خریدی جا سکتی ہے ؟؟؟۔۔۔ ٹریفک کے قوانین توڑ کر جو بھاگ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ کس لئے ؟؟؟ کیا جلدی ہے ؟؟؟ سب کی منزل تو اس کا اپنا گھر ہی ہے ۔ جہاں جلد یا تاخیر پہنچنا ہی ہے ۔ یا پھر وہ قبر ہے جہاں تک لوگ خود لے جاکر دفنا دیں گے اور یہی تو آخری منزل ہے ۔ اس آخری سفر کے لئے انسان کوئی تیاری نہیں کرتا ۔۔ مگر یہ سفر بھی آسان ہوسکتا ہے ۔ دلوں کو جیت کر ، راستہ دے کر
اور آسانیاں تقسیم کر کے، ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرکے ۔
انسان کھلونا تو نہیں جس سے ایک مدت تک کام لے کر بےکار سمجھ کر بھینک دیا جائے ۔ بے حسی کے چراغ تلے بہت سے قابل عزت استاد ـ قابل احترام صحافی ،ادیب مفکر ۔ فنکار اپنے شعبے میں ماہر موسیقار، صدا کار بہت بڑے نام آج گمنامی کی زندگی گزارنے میں مجبور ہیں ۔ انہیں ان کے حصے کی عزت تک نہیں دی جاتی ۔جب وہ بیمار ہوتا ہے کوئی اس کی عیادت نہیں کرتا ِ کوئی مزاج پرسی نہیں ہوتی ۔۔یہاں تک کہ جب وہ فنکار مر جاتا ہے تو ایک رسمی تعزیتی خبر بن کر ہمارے سامنے آجاتی ہے اور اس کی علمی اور فن خدمات کو چند لفطوں سراہا جاتا ہے ۔۔ اس کے جنازے میں دو چار ادیب یا فنکار اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جنازہ پڑھتے ہیں اور تدفین میں حصہ لیتے ہیں ۔۔ باقی عظیم فنکار اور شاعر جو کبھی ان کے ساتھ رہتے اور واہ واہ کرتے ، خاموش تماشائی کا کردار اد کرتے یا بھر اپنی مصروفیت کا رونا روتے ۔ یا پھر جھوٹے بیان دیتے کہ ہم بھی اس کے آخری وقت میں تدفین اور رسومات میں شامل تھے ۔ اللہ کا قانون ہے جو بو ؤگے وہی پھل پاؤ گے اور یہ بھی سچ ہے کہ مردے کو کیا پتہ کون کون اس کے قل میں شریک تھا ۔ کس نے دل سے دعا کی اور کس نے رسمی کلمات ادا کیے ۔۔۔ کیا انسان کی فنی خدمات کا کیا یہی صلہ ہے ۔
وہ فنکار اور تخلیق کار جو زمانے کی بےحسی کے ہاتھوں گوشہ نشینی میں چلے گئے ان کو اہمیت اور عزت دے کر گمنامی کے اندھیرے سے نکالا جا سکتا ہے ۔ ابھی بھی کتنے فنکار ، تخلیق کار ،مفکر ، شاعر ،ادیب اور موسیقار ہم میں موجود ہیں ۔ جو زمانے کی سفاکی کا شکار ہیں اور حیات ہیں ۔ جو ماضی میں درخشاں ستارے تھے۔ وہ درخشاں ستارے آج بھی ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جو آج ہمارے لیے ایک استاد کا درجہ رکھتے ہیں ۔ وہ آج بھی استاد کے فرائض انجام دے سکتے ہیں ۔ اپنا فن آنے والے لوگوں کو سکھا سکتے ہیں ۔۔اپنی زندگی کو بامقصد بنا سکتے ہیں ۔ایسے محترم استادوں کے لیے حکومت کی طرف سے یا نجی طور پر ایک ایسے اداروں کا قیام ممکن بنانا ہوگا جو ان اساتذہ کو جینے کا مقصد دے سکے ۔ جو ان کو یہ احساس دے سکے کہ ابھی سفر ختم نہیں ہوا جو اپنی زندگی کا نچوڑ اپنی کتابوں میں رقم کر جائیں ۔ جو آنے والے بےچین مسافروں کی رہنمائی کر سکیں ۔ کوئی تو ایسا عمل ہو جو گوشہ نشین ان ہیروں کو مرنے سے پہلے جینے کا احساس دلا سکے ۔