تعظیم احمد
اس جہا ن ر نگ و بو میں ہر شخص اپنے من میں کو ئی نہ کو ئی مر ا د لے کر اپنے مقصد کے حصو ل کے لئے کو شا ں ہے ۔ کا میا بی وہ شے ہے جس کی تمنا ہر شخص کر تا ہے ۔ مگر کا میا بی کیسے حا صل کی جائے ؟ یہ اس دنیا کا سب سے بڑ ا معما ر ہے ۔
کا میا بی حا صل کر نے کے اس معمے کو مختلف نظر یا ت اور فکر کے لو گو ں نے اپنے اپنے اندا ز میں حل کر نے کی کو شش کی ۔ ا طا لو ی مفکر مکا لو ی نے نتیجہ ہی ذ ر یعے کا جو ا ز دیتا ہے کا فا ر مو لا دیا یعنی اگر آ پ کسی بھی مقصد کا حصو ل چا ہتے ہیں تو جا ئز و نا جا ئز کی تمیز کئے بغیر ، تما م میسر ذر ا ئع استعما ل کیجئے ۔ اگر آپ اپنا نصب العین حا صل کر لیتے ہیں تو آپ کے استعما ل کر دہ ذ را ئع چا ہے وہ ا خلا قی یا غیر اخلا قی، در ست اور جا ئز قرا ر پا تے ہیں ۔
بر طا نو ی ادیب فرا نسس بیکن نے اعلیٰ مقا م تک جا نے کا ہر را ستہ گھو متی ہو ئی سیڑ ھیو ں سے ہو کر جا تا ہے کے فلسفے کا پر چا ر کیا جس کا وا ضح کا مطلب یہ ہے کہ کو ئی بھی شخص غیر ا خلا قی یا غیر قا نو نی ہتھکنڈے استعمال کئے بغیر اعلی مقا م نہیں پا سکتا ۔ لیکن ان کے یہ تما م فلسفے اخلا قیا ت کے حدو د و قیو د کو پا ما ل کر نے کے با عث نا قا بل عمل ٹھہر ے۔
کسی بھی مقصد میں کا میا بی حا صل کر نے کے لئے دو عوا مل کا کر دا ر کلید ی ہو تا ہے : ا ول انسا ن کی محنت ؛ اور دوم قسمت۔ ان دونو ن عو امل کے تنا سب کے با رے میں مختلف آرا ء ہیں ۔ کچھ لو گ صر ف قسمت کو کا میا بی کا حصو ل قرا ر دیتے ہیں جبکہ کچھ افر ا د قسمت کے فیکٹر کو یکسر نظر اندا ز کر کے صر ف محنت کے حا می ہیں ۔ مگر اکثر یت کی را ئے یہ ہے کہ محنت اور قسمت کا کر دا ر 50-50ہو تا ہے ۔ یعنی کا میا بی کے حصو ل کے لئے نصف کردار محنت ادا کر تی ہے جبکہ با قی نصف ما ند ہ قسمت ادا کر تی ہے۔
کسی بھی دنیا وی مقصد کو کا میا ب کر نے کو 100 نمبر کا پر چہ ہی سمجھیے۔ بہت سے تعلیمی ادا روں میں کسی بھی مضمو ن کے پر چے میں نمبر و ں کے دو حصے ہو تے ہیں : تھیو ر ی اور سیشنل ۔ تھیو ر ی کے ما ر کس ،پر چہ حل کر کے اپنی قا بلیت کے بل بو تے حا صل کیے جا تے ہیں جبکہ سیشنل ما ر کس ممتحن کے ہا تھ میں ہو تے ہیں اور ممتحن ان ما ر کس کے معا ملے میں مکمل طو ر پر با اختیا ر ہو تا ہے۔ سیشنل ما ر کس دیتے و قت ممتحن ، طا لب علم کی حا ضر ی ، کلاس کنٹر ی بیو ٹیشن ، ڈسپلن اور مجمو عی رو یہ کو مد نظر ر کھتا ہے ۔ طا لب علم کا ر و یہ کلا س میں ا چھا رہا ہو تو طا لب علم کوسیشنل میں اچھے گر یڈز سے نوا زا جا تا ہے۔ خر ا ب رو یہ ر کھنے کی صو رت میں وہ سیشنل ما ر کس سے محر و م ر ہتا ہے ۔
آپ کا کو ئی بھی مقصد جو آپ اپنی زند گی میں حا صل کر نا چا ہتے ہیں ، جیسے 100 ما ر کس کا پر چہ جس کا نصف تھیو ر ی اور نصف سیشنل ہے ۔ اپنے مقصد کے حصو ل کے لئے آپ کی انتھک محنت اورتگ و دو آپ کی محنت 50ما ر کس کی تھیو ر ی پر ہو تی ہے جبکہ با قی کے 50ما ر کس سیشنل ہیں یعنی آپ کی قسمت یا مقد ر ہے۔ اس پر چے کے ممتحن کو ئی اورنہیں بلکہ اللہ تبار ک و تعا لی ہیں ۔ جس طر ح تعلیمی اداروں میں سیشنل ما ر کس کے لئےمجمو عی رویہ دیکھا جا تا ہے با لکل اسی طر ح ممتحن اعلی بھی قسمت کے سیشنل ما ر کس سے نوا زتے وقت یہ دیکھا جا تا ہے کہ امید وار کا رویہ اس کے سا تھی انسا نو ں کے سا تھ، اور ممتحن کے خا ندان وا لو ں (الخلق عیا اللہ ) کے سا تھ کیسا ہے ۔
اگر آپ انسا نیت کے سا تھ صلہ ر ہمی کر تے ہیں ، ایثا رو قر با نی کا رو یہ اپنا تے ہیں ، اخو ت و روادا ر ی کو کا م میں لا تے ہیں تو پھر قو ی ا مید ہے کہ ممتحن آپ کو ر حمت و قسمت کے پو رے سیشنل ما ر کس 50\50سے نوا ز ے گا۔ اور اگر آپ کی محنت میں کو ئی کو تا ہی رہ بھی گئی ہو تو پھر بھی ر حمت خدا و ند ی کے شا مل ہو نے سے آ پ کا میا ب ہو جا ئیں گے ۔ لیکن اگرآُ پ خلق خد ا سے منہ پھیر لیتے ہیں اور اخو ت و پیار ، مہر با نی جیسی ا قدا ر کو نظر اندا ز کر کے صر ف محنت اور ما دیت اپنی (تھیو ر ی ) پر تکیہ کر تے ہیں تو پھر چا ہے آپ جتنے جتن کر لیں ، جب ر حمت خدا وند ی کے 50 ما ر کس ہی شا مل نہیں ہو ں گے تو آ پ کی کا میا بی کے امکا نا ت بھی معدو م ہو جا ئیں گے ۔
کا میا بی حا صل کر نے کا وا حد جا ئز اور ا خلا قی طر یقہ یہی ہے کہ خلق خد ا کو یا د ر کھیے۔ لو گو ں کے سا تھ صلہ ر حمی کیجیے۔ ان کے سا تھ محبت سے پیش آئیے ۔ ان کی مد د کیجیے۔ آپ کے یہ ا عما ل آپ کو ا للہ تبا ر ک و تعالیٰ کا قر ب عطا کر یں گے۔ اس کا نتیجہ آپ کو اللہ اپنی رحمت سے نوا زے گا ۔ اور پھر کا میا بی کے دروازے آپ کے لیے کھلتے چلے جائیں گے ۔