تحریر: رومیصا منور
پچھلے دنوں جب امریکا والی خالہ نے پاکستان ٹور پر جانے کا منصوبہ بنایا تو دل کر رہا تھا کہ ہم سب ابھی روانہ ہو جائیں۔ خیر وہ دن بھی آہی گیا جب ہم سیر و سیاحت کی غرض سے سفر کے لیے ریلوے اسٹیشن پر اترے۔
پارکنگ ایریا اور گاڑیوں کے اسٹینڈ پر خاصا رش تھا اور قلی سامان اٹھانے کے لیے موجود تھے۔ ہم نے اپنا سامان ایک قلی کے حوالے کیا اور اس کے پیچھے پیچھے ریلوے اسٹیشن میں داخل ہو گئے۔ اندر پہنچ کر ہمیں ایک کوفت اور اذیت نے گھیر لیا۔ یہ کیا تماشا ہے کہ شہر تو شہر ہماری اہم عمارتیں اور خاص مقامات بھی گندگی اور کچرے کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔
ریلوے اسٹیشن کی عمارت کسی بھی شہر کی ایک خوب صورت نشانی اور قوم کے مزاج، نظم و ضبط اور عادات و اطوار کی علامت ہوتا ہے۔ دوسرے شہروں اور اکثر بیرونِ ملک سے بھی یہاں آنے والے جب اندرونِ مک سفر کرتے ہیں تو ٹرین کا سہارا لیتے ہیں۔ ان پر کیا اثر پڑتا ہو گا، یہ سب ابھی سوچا ہی تھا کہ ٹرین نے وسل کے ذریعے روانگی کا اشارہ دیا۔ اچانک ہی کہیں سے مونگ پھلی کی خوش بُو نے ہمیں شاداب کر دیا، مگر دوسرے ہی لمحے ایک انتہائی ناگوار بُو نے ہمارا استقبال کیا۔ پان کی پیکیں، جا بجا پھیلے ہوئے شاپر اور ان میں موجود کچرا پٹڑیوں کے ساتھ دور تک چلا جارہا تھا۔ اسٹیشن پر بدبُو اور کچرا دیکھ کے میرا تو دل ہی خراب ہو گیا۔ اس قدر گندگی اور تعفن تھا کہ سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ میں شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔ دراصل میں نے انجانے میں خالہ سے کراچی کے ریلوے اسٹیشن کی کچھ زیادہ ہی تعریفیں کر دی تھیں اور یہاں تو حال بالکل ہی الٹ تھاـ
کئی سال پہلے میرا یہ شہر کلاچی کے نام سے جانا جاتا تھا جو رفتہ رفتہ زبان پر چڑھتا پھسلتا ہوا صرف کراچی ہوگیا، لیکن اب کچھ عرصے سے اس کی گندگی اور کچرے کا تذکرہ کرتے ہوئے سبھی نے اسے کچراچی کہنا شروع کر دیا ہے۔ ڈر رہی ہوں کہ کہیں میرے اس پیارے شہر کا نام واقعی کچراچی نہ ہو جائےـ
حالیہ بارشوں کے بعد کراچی میں دھول مٹی اور فضائی کثافتوں سے نجات تو ملی مگر یہی بارشیں باعثِ زحمت بھی بنیں۔ پورے کراچی میں سڑکوں پر گویا سیلاب آیا ہوا تھا۔ گٹر ابلے اور لوگوں کا گھروں سے باہر نکلنا ہی دشوار ہو گیا۔ بارشوں کے بعد کراچی کی حالت مزید بگڑ گئی۔ سڑکوں پر پڑا ہوا کچرا سڑنے لگا اور نکاسیِ آب کا نظام چوپٹ ہونے کی وجہ سے ہر طرف بدبُو تھی۔
کراچی شہر جو عروس البلاد تھا، آج گندگی کا گڑھ ہے جس پر سیاست تو کی جارہی ہے، مگر کوئی اسے ٹھکانے لگانے آگے نہیں بڑھ رہا۔
اربابِ اختیار نے دعوے کیے اور دو ایک روز کام ہوتا نظر بھی آیا، لیکن مستقبل مزاجی کا فقدان کہیں یا پھر یہ کوئی سیاسی کھیل ہے کہ دو تین روز جاری رہنے والا کام اچانک ہی بند ہو جاتا ہے اور کچرا وہیں کا وہیں نظر آتا ہےـ کوئی ادارہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اب تک کئی بیانات اور اعلانات سامنے آچکے ہیں اور سبھی کراچی سے ہم دردی جتاتے نظر آتے ہیں، مگر کیا عوام کو اس طرح مطمئن کیا جاسکتا ہے جب کہ کہیں صفائی نظر نہیں آرہی۔
یہاں یہ بھی ضرور دیکھنا ہوگا کہ کیا جگہ جگہ کچرے کے ان ڈھیروں کی ذمے دار صرف اربابِ اختیار اور متعلقہ ادارے ہیں یا عوام بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم اپنا کچرا اور گندگی گلیوں اور چوک چوراہوں پر پھینکے کے عادی ہیں جب کہ شہر کے مختلف علاقوں میں کچرا کنڈیاں اور ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں متعلقہ ادارے کی گاڑیاں آکر اسے آسانی سے اٹھا سکتی ہیں۔
یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم جیسے پڑھے لکھے لوگ سڑک پر کچرا پھینکتے ہیں اور ان پڑھ اسے اٹھاتے اور گندگی کو صاف کرتے ہیں۔ آج سے تین سال پہلے حکومتِ سندھ نے چینی کمپنی سے کچرا اٹھانے کا معاہدہ کیا تھا، مگر صورتِ حال ابتر ہوچکی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
اگر ہم اور ارباب اختیار نیک نیتی سے فیصلہ کر لیں تو یہ کچرا نہ صرف ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے بلکہ اس سے ہم کئی ایسے کام لے سکتے ہیں جو ہمارے ہی لیے سود مند ثابت ہوں گےـ
تو بات ہو رہی تھی ریلوےاسٹیشن کی جو کسی بھی شہر اور وہاں کے باسیوں کے تمدن اور طرزِ حیات کی جھلک دکھاتا اور اس شہر کے وقار اور عظمت کی نشانی بھی ہوتا ہے۔ اس عمارت کو، ریلوے اسٹیشن اور اس کے اطراف کو تو صاف ستھرا رکھیے۔ کچھ تو کیجیے کہ اس شہر کو اس کی شناخت اور پہچان دوبارہ مل سکے۔