تحریر: اسامہ عثمانی
کراچی کا کچرا ابھی تک عوام کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہےاور کچھ دن قبل کراچی میں کچرے کے ڈھیر اور مکھیوں کی بھرمار کا چرچا عالمی میڈیا پر دیکھ کر بہت دکھ ہوا ۔ عالمی میڈیا نےبھی یہ لکھا کہ کراچی میں صفائی کا سنگین مسئلہ بدانتظامی کا نتیجہ ہے کیونکہ کراچی میں کچرے کو اٹھانے اور صفائی کا مربوط انتظام ہی موجود نہیں ہے۔
شہر کو کچرے سے چھٹکارا دلانے اور مسائل حل کرنے کے لیےحکومت سندھ کی جانب سے کراچی میں ایک ماہ تک صفائی مہم جاری رہی اور دفعہ 144 لگا کرعوامی مقامات پر کچرا پھینکنے پر پابندی بھی عائد کی گئی جس کے بعد کچھ گرفتاریاں بھی کی گئیں اور حالات میں کچھ بہتری بھی نظر آئی مگر اب پھر سے وہی حالات ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
کراچی کی گلیوں میں اور سڑکوں پر جگہ جگہ اب بھی کچرے کا ڈھیر اور پانی موجود ہے جس کی وجہ سے روشنیوں کا شہر آلودگی میں ڈوبا ہواہے اور یہاں ڈینگی جیسی خطرناک بیماری بھی بہت تیزی سےپھیل رہی ہیں، اسکے علاوہ جلد، گردوں، پھیپھڑوں اور جگر کے امراض بھی پھوٹ پڑے۔
کراچی کےکئی علاقوں میں چھوٹی گلیوں اور عام کزرگاہوں پر جو کچرے کا ڈھیر لگا ہوا ہےاس میں صرف عوام کا ہاتھ ہےکراچی ميں کچرا پھينکنا جرم قرار دینے کے باوجودلوگوں نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا اور جہاں دل چاہا وہاں کچرا ڈال دیا، کچھ لوگ تو دوسروں کے گھروں کے آ گے بھی کچرا ڈال دیتے ہیں اوراپنے علاقے کو خود ہی گندا کرتےاور ذمہ دار صرف حکومت کو ٹہراتےہیں کہ حکومت صفائی کا کام نہیں کروا رہی یا پھر صفائی کے نام پر صرف سیاست ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف کچرا اٹھانا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ جگہ جگہ کچرا پھینکنا اور کچرے کا ڈھیر لگانا بھی ایک مسئلہ ہے جس میں عوام کاہی ہاتھ ہے جس کو جہاں موقع ملے کچرا پھینک دیتا ہے اور کہیں ذرا سا کوڑا نظر آجائے وہاں اور لوگ بھی کچرا ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے صبح کے وقت میں ایک گلی سے گزر رہا تھا تو اچانک کہیں سے ایک کچرے کی تھیلی آ کر ایسی جگہ پر گری جہاں پہلے سے ایک دو تھیلیاں اور پڑی ہوئی تھیں اس طرح وہاں ایک اور کچرے کے ڈھیر کا افتتاح ہوگیا۔
جہاں تک حکومت کی ذمہ داری کا سوال ہے تواس کےبارے میں بھی بہت افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ ہماری حکومت بھی ایسے کاموں میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی اور کوئی بھی مسئلہ ہو اس کو لے کر سیاست شروع کردیتی ، بجائے کام کے یہاں ہر کوئی الزامات دوسرے کے سر ڈال دیتا ہے۔
دو کروڑ کی آبادی والے شہر کراچی میں یومیہ کچرا تقریباً ساڑھے چودہ ہزار ٹن نکلتاہے جس میں سے صرف آٹھ ہزار سے دس ہزار ٹن اٹھایا جاتا ہے باقی کا چار یا پانچ ہزار ٹن ندی نالوں میں پھینک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کراچی کے ندی نالے بھی بھرے رہتے ہیں۔
اورایک یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ ہماری حکومت اس کچرے سے پاور جنریشن کیوں حاصل نہیں کرتی ؟ایک رپورٹ کے مطابق کراچی سے نکلنے والے یومیہ ساڑھے چودہ ہزار ٹن کچرے سے کچرے سے 250 میگا واٹ بجلی پیدا کر کےعوام کو سستی بجلی فراہم کی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
اس کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ کچرے کو جمع کرنے کی پریشانی سے نجات ملے گی اور سستی بجلی ملنے کے ساتھ ساتھ کچرے کی صفائی کے بعد شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا اور ڈمپنگ پوائنٹس میں بھی کمی آئے گی ، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے میں حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور عوام سے بھی گزارش ہے کہ اب تو ہوش کے ناخن لیں ، جگہ جگہ کچرا نہ پھینکیں اور قائد کے شہر کو آلودگی سے پاک رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ankara escort
bahçelievler escort
balgat escort
batıkent escort
beşevler escort
büyükesat escort
çankaya escort
cebeci escort
çukurambar escort
demetevler escort
dikmen escort
elvankent escort
eryaman escort
esat escort
etimesgut escort
etlik escort