تحریر: محمد راشد
ہر طرف درد سے تڑپتے، تکلیف جھیلتے مریض اور ان کے تیمار دار جن کی آنکھوں میں امید اور آنسو سبھی کچھ تھا۔
اسپتال میں کھڑا یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ مجھے کچھ غیر معمولی احساس ہوا، سوچنے لگا کہ آخر کیا ہوا ہے اور یہ کیسی ہلچل ہے؟ اسی دوران ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ ایک شخص دو سال سے زائد عمر کے بچے کو گود میں لیے ایک طبی شعبے سے دوسرے کی طرف دوڑ لگا رہا تھا۔ بچے کو آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا اور سانس بحال رکھنے کا وہ آلہ ایک دوسرے شخص نے تھاما ہوا تھا۔
ایک جانب یہ بھاگ دوڑ اور جان بچانے کی کوشش سامنے تھی اور دوسری طرف بے حسی کا وہ منظر دیکھنے کو ملا کہ اس پر رونا آگیا۔ صوبے کے جس سرکاری اسپتال میں غریب مریض اور ان کے تیمار دار مسیحائی کے آسرے میں پہلے ہی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں، اسی اسپتال میں جب یہ سب ہوتا ہے تو صورتِ حال مزید درد ناک ہوجاتی ہے۔
جس وقت آکسیجن ماسک لگے اس بچے کو ادھر سے ادھر لے جایا جا رہا تھا، عین اسی وقت ایک ہجوم امڈتا ہوا آگے کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس کے آگے چلتا شخص مریضوں اور تیمار داروں کو راستہ دینے کو کہہ رہا تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے یہ لوگ صوبے کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے ملازمین تھے جو بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں تھے۔ یہ اپنے مطالبات کی منظوری ک لیے پُرجوش انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔ مطالبات بھی کیا وہ اپنی تنخواہ میں اضا فے کے لیے احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے۔
سب ایک ہجوم کی صورت اسپتال میں گویا دندناتے پِھر رہے تھے اور اس سے بے نیاز تھے کہ ان کا منصب کسی کی جان ضایع کرنا نہیں بلکہ جان بچانا ہے۔
شعبہ طب سے وابستہ ہر فرد چاہے ڈاکٹر ہو، نرس یا دوسرا اسٹاف وہ اپنی جگہ اہم ہے اور اگر یہ کہا جائے کسی کی جان بچانے اور تکلیف کم کرنے میں مدد دینے میں سبھی کا کوئی نہ کوئی کردار ہوتا ہے تو کیا غلط ہوگا۔ اسی لیے میڈیکل کا شعبہ منفرد ہے جس سے کوئی زندہ معاشرہ انکار نہیں کرسکتا۔
مریضوں کی دیکھ بھال اور ان کے بہتر علاج کے لیے جہاں ایک ڈاکٹر کا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے، وہیں مریضوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات اور خدمات کی فراہمی میڈیکل اسٹاف کے فرائض میں شامل ہے۔ میڈیکل اسٹاف کی ذرا سی توجہ جہاں مریض کی جان بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے، وہیں ذرا سی غفلت کئی زندگیوں کے خاتمے اور ان کی تکالیف بڑھانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اس لیے مذکورہ احتجاجی مظاہرہ میرے نزدیک میڈیکل اسٹاف کے فرائض منصبی پر ایک بڑا سوال ہے۔
اگر کچھ دیر کے لیے میڈیکل اسٹاف کے مطالبات کو ایک طرف رکھ دیں تو کیا کبھی انھوں نے یہ سوچا ہو گا کہ ان کے ایسے احتجاج کے سبب کتنے مریض علاج کی سہولت سے محروم ہوگئے ہوں گے؟
کیا طبی عملے اور اسپتال کے اسٹاف کے کسی رکن نے احتجاج کرنے سے قبل یہ سوچا ہو گا کہ ان کے اس عمل سے کتنی جانیں بسترِ مرگ تک پہنچ سکتی ہیں؟
مظاہرین نے سوچا ہو گا کہ اس احتجاج کے نتیجے میں کتنی مائیں اپنی اولاد سے محروم ہوسکتی ہیں؟
کیا احتجاج سے قبل یہ سوچا گیا ہو گا کہ وہ کس انتہائی حساس اور کسی اہمیت کے حامل ادارے سے وابستہ ہیں اور ان کے فرائض منصبی اس احتجاج کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں؟
کیا احتجاجی مظاہرین نے اس بات پر غور کیا کہ اسی روز ان مریضوں میں ان کا لختِ جگر اور کوئی پیارا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہو کر پہنچتا تو وہ مظاہرے کو ترجیح دیتے یا اس کی جان بچانے کی کوشش کرتے؟
صاحبو، مکافاتِ عمل سے ڈریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ احتجاج کے ذریعے زیادہ اجرت لینے میں کام یاب ہوجائیں، لیکن کیا یہ اس بات کا اشارہ نہیں کہ آپ مریضوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اپنے شعبے کی حساسیت اور اہمیت کو جانتے ہوئے اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور یہ انسانوں کی موت کا سودا کرنے کے مترادف ہے۔
اپنے حق کے لیے کھڑے ہونا یا صدائے احتجاج بلند کرنا غلط اور ناجائز نہیں، لیکن کیا ہی خوب ہو کہ اس حوالے سے کوئی کوشش اور کوئی احتجاج کسی کے لیے تکلیف دہ اور جان لیوا ثابت نہ ہو۔ اگر آپ کو اپنا حق چاہیے تو احتجاج کا راستہ ضرور اپنائیں، لیکن اس سے پہلے یہ یقین کر لیں کہ آپ کسی کی تکلیف تو نہیں بڑھا رہے اور کیا اس احتجاج کے دوران اسپتال میں آنے والا کوئی بھی مریض متاثر نہیں ہو گا۔
بلاگر نے بین الاقوامی تعلقات میں بی ایس کیا ہے، صحافی ہیں. سماجی مسائل کی نشان دہی اور مختلف موضوعات پر تحریری اظہار خیال کے ساتھ دل چسپی کے دیگر موضوعات پر مباحث میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔