بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی مذہب کارڈ تو کبھی لسانی کارڈ استعمال کرکے یا پھر مجھے کیوں نکالا اور حقیقی آزادی کا نعرہ بلند کر کے ووٹروں کو سڑکوں پر نکالا جاتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں واپسی یقینی بنانے کے لیے عوام کو استعمال کر کے ملک کے نظام پر دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ سیاست دان روایتی ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اپنے اقتدار کو طول دینے یا واپس آنے کے لیے تو بھرپور مہم چلاتے ہیں مگر حکومت میں رہتے ہوئے عوامی مسائل کے حل اور سہولیات کی فراہمی کے لیے ہر دو تین ماہ بعد مزید چند ماہ کے انتظار کا وعدہ کرتے نظر آتے ہیں۔
جمہوریت براہِ راست عوامی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کی ضامن سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں اقتدار کے حصول یا اپنی حکومتیں بچانے کے لیے تو میثاقِ جمہوریت پر اتفاقِ رائے اور دستخط ہوجاتے ہیں، مگر عوامی مفاد میں کسی میثاقِ معشیت پر کوئی حکم ران یا سیاست دان بات نہیں کرتا۔
جب کسی سیاست دان کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اقتدار اس کے ہاتھ سے جارہا ہے یا اس کی حکومت ختم کردی جائے گی تو وہ مجھے کیوں نکالا کا بیانیہ عام کرنے سے قبل عوام کے لیے قومی خزانے کا منہ کھول دینے اور ان پر پیسہ لٹانے کی باتیں کرنے لگتا ہے، کبھی کوئی اپنی ناقص پالیسوں کی وجہ سے خود کو اقتدار سے محروم ہوتا دیکھتا ہے تو اپنی حکومت کی ناکامیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوششیں تیز کردیتا ہے۔ اس طرح اپنے مفاد میں عوام کو وقتی فائدہ دے کر قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا جاتا ہے اور معیشت کی ایسی تیسی کردی جاتی ہے۔
کبھی ایوانِ اقتدار سے باہر ہونے سے پہلے اچانک رجیم چینج کا شور مچا دیا جاتا ہے اور نئی حکومت کو امپورٹڈ حکومت کا طعنہ دیا جاتا ہے جب کہ مخالفین ماضی میں پچھلی حکومت کے لیے سیلیکٹڈ کا لفظ استعمال کرکے عوام کے جذبات بھڑکاتے نظر آتے تھے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ اس سیاسی رسہ کشی اور اقتدار کے لیے اس کھینچا تانی میں ملک کا معاشی نظام بری طرح متاثر ہوتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے خواہش مند کبھی ملک میں معاشی انقلاب لانے کے لیے متحرک نہیں نظر آتے۔ ہم نے میثاقِ جمہوریت کی پریکٹس دیکھی ہے۔ حکومت بچانے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد دیکھا ہے۔ اپنی خواہش کے مطابق جمہوری نظام کی بحالی اور بقا کے لیے وائٹ پیپر پیش ہوتے دیکھے ہیں۔ دوبارہ یا فوری انتخابات کا دباؤ ڈالنے کے لیے بڑے بڑے جلسے دیکھے ہیں، لیکن ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی سنجیدہ کوششیں اور ٹھوس اقدامات نہیں دیکھے۔
پڑوسی ملک سری لنکا کے حالات ہمارے سامنے ہیں جو دیوالیہ ہو گیا۔ خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ سری لنکا میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 2.31 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جب کہ رواں برس اسے بیرونی قرضوں کی مد میں چار ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستان کی صورتِ حال دیکھیں تو بیرونی قرضوں کا حجم 127 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے جس میں آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ممالک سے لیے گئے قرضوں کے علاوہ مقامی کمرشل بینکوں سے قرضے شامل ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے قرضے اور واجبات کا مجموعی حجم ستمبر 2021 کے اختتام تک تاریخ میں پہلی بار 504 کھرب 86 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعت کے دورِ حکومت میں سوا تین سال کے دوران قرضوں میں اوسطاً 17 ارب 36 کروڑ روپے یومیہ کا اضافہ ہوا۔ جون 2018 سے ستمبر 2021 تک مجموعی قرضوں اور واجبات میں 206 کھرب 5 ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ دوسری جانب ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کرنے والی شہباز حکومت کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر ان کی جانب سے کوئی معاشی پالیسی تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔ یوں لگتا ہے وہ بے اختیار وزیراعظم ہیں۔ انہیں اہم فیصلوں کے لیے لندن حاضری لگانا پڑ رہی ہے۔
ملک میں حکومت کی تبدیلی کے بعد یہ سوال اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ آخر کیسے ملک میں معاشی بہتری آسکتی ہے؟ اطلاعات کے مطابق سرمایہ کاروں نے اس ایک ماہ کے دوران پاکستانی مارکیٹ سے 4.1 ارب نکالے جب کہ ڈالر 200 تک جا پہنچا ہے اور اسٹاک مارکیٹ کئی پوانٹس نیچے اور اتار چڑھاؤ کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
ماہرین معیشت کے مطابق گذشتہ کئی سال سے حکومتی دعوؤں اور وعدوں کے باوجود بھی معاشی مشکلات کا حل نہیں نکالا جاسکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بلند جب کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والی آبادی 38 فی صد بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی برآمدات میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ یہ پچھلے کئی برسوں سے 20 سے 25 ارب ڈالرز کے درمیان ہی ہے۔ پاکستان کا بجٹ خسارہ اس کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے سات سے نو فی صد کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح جی ڈی پی کے مقابلے میں ٹیکس ادا کرنے کی شرح میں بھی کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ حکومت کو زمین داروں اور کسانوں کا اعتماد حاصل کرکے زرعی پیداوار بڑھانی ہوگی۔ سرمایہ دار طبقے کو اعتماد میں لے کر روپے کو مضبوط کرنا ہو گا۔ صنعت کاروں سے مشاورت بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے ساتھ حکومت عوام کو جس قدر ممکن ہو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کرے، لیکن اس کے لیے ملک میں جاری سیاسی انتشار کو ختم کرنا ہوگا جو صرف حکومت کی ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کی بھی ذمے داری ہے۔
حال ہی میں ماہرِ معیشت اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کی کتاب شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے سیاسی اتفاقِ رائے اور سول سوسائٹی کی حمایت سے معیشت کی بہتری کے لیے ’چارٹر آف اکانومی‘ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے ایک چارٹر میں اصلاحات کے لیے نشان دہی کی جائے، نئی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے غربت کا خاتمہ اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور ملک میں خوشحالی کو فروغ دیا جاسکے۔