یہ عنوان پڑھ کر قارئین اپنا رخ کہیں اور نہ کریں کیونکہ یہ رشتہ ہم نے نہیں بلکہ جانے انجانے میں مسلم لیگ (ن) کے ہی ایک رہنما احسن اقبال جنہیں ان کے ایسے ہی نادر افکار اور خیالات کی بنا پر قوم ارسطو مان چکی ہے، نے جوڑا ہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی ماں ہے۔ یہ شاید ان کا اُسی طرح کا سیاسی رنگ لیے فلسفیانہ بیان ہے جب انہوں نے قوم کو چائے کم پینے کا نادر مشورہ دیا تھا۔ بہرحال احسن اقبال کے اس انکشاف نے قوم کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ پوری قوم تو اب تک یہی سمجھتی رہی کہ پاکستان بنانے والی جماعت بغیر کسی ن، م، ش، ض، ق کے صرف مسلم لیگ ہی تھی جس کی مخلص لیڈر شپ کی دن اور رات کی کاوشوں کی بدولت 1947 میں دنیا کے نقشے پر ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان’ ابھرا۔
وفاقی وزیر نے اپنے بیان کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے کہا کہ “ن لیگ پاکستان کی ماں ہے اور ماں کبھی بھی اپنے بچے کو قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتی اسی لیے ن لیگ نے سیاسی ساکھ داؤ پر لگا کر پاکستان بچانے کی سیاست کی ہے۔” ان کے اس “انکشاف” نے قوم کو تو حیرت میں ڈالا ہی لیکن تاریخ کا دھارا موڑنے کی بھی ایک “بے ضرر” سی کوشش کی ہے۔ پاکستانی چاہے وہ بڑھاپے میں ہو یا جوان یا پھر بچے سب ہی قائداعظم محمد علی جناح والی مسلم لیگ کو پاکستان کی بانی جماعت اور قائداعظم کے ساتھ ان کے رفقائے کار کو بانیان پاکستان مانتے آئے ہیں لیکن اس تازہ ترین “انکشاف” پر ہماری تاریخ بھی انگشت بدنداں رہ گئی ہے۔
جب احسن اقبال نے قوم کے کانوں میں یہ رس گھولنے کی سعی کی ہے تو ہم بھی قوم بالخصوص نونہالان وطن کو جو قیام پاکستان اور مسلم لیگ کی تاریخ سے زیادہ واقف نہیں ہیں، مسلم لیگ کی تاریخ کا مختصر احوال بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ کیا تھی، کیا ہے؟ اور کیا ملک میں اس وقت موجود نصف درجن مسلم لیگوں میں کوئی اصل مسلم لیگ بھی ہے؟ جو ملک اور قوم سے مخلص ہو۔
مسلم لیگ 1906 میں قائم ہوئی جس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ تھا۔ 1937 کے انتخابات میں کانگرس کو فتح ہوئی اس نے ہندوستان کے تمام صوبوں میں حکومتیں قائم کرلیں۔ ہندوؤں کا مسلمانوں کیخلاف عملی تعصب کھل کر سامنے آگیا تو مسلمان اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں۔ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ کامیابی سے لڑا۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ 1945-46 کے انتخابات میں مسلمانوں نے علیحدہ اور آزاد وطن (پاکستان) کے حق میں ووٹ دیے اور مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ 14اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ پاکستان سے مخلص دونوں رہنما جلد قوم کو داغ مفارقت دے گئے جس کا خمیازہ پاکستان اور اس کی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
یہ تھی اصل مسلم لیگ جس کی قیادت اپنی ذات یا خاندان سے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان اور قوم سے مخلص تھی لیکن جب یہ دونوں بڑے لیڈر دنیا سے رخصت ہوئے تو مسلم لیگ کی حیثیت اس تڑپتی اور سسکتی روح کی طرح ہوگئی جس کے گرد گدھ منڈلانے لگے کہ کب یہ ختم ہو اور وہ اس کے حصے بخرے کریں مسلم لیگ کی روح تو ختم ہوگئی لیکن گدھوں نے اس کے اتنے حصے بخرے کیے کہ بانیان پاکستان کی روحیں بھی اپنی مسلم لیگ کا یہ حال دیکھ کر تڑپ اٹھی ہوں گی۔
قیام پاکستان کے بعد تو صورتحال یہ ہوئی جو آیا وہ اپنی مسلم لیگ بناتا اور اس کے آگے ن، ق، ض، ف و دیگر حرف تہجی لگاتا گیا۔ اتنی برق رفتاری سے مسلم لیگیں بنیں کہ قوم کو یہ خدشہ ہونے لگا کہ اگر مسلم لیگوں کی پیدائش اسی رفتار سے جاری رہی تو شاید اردو کے سارے حرف تہجی ختم ہوجائیں گے لیکن ساتھ یہ فکر بھی کہ اگر پھر نئی مسلم لیگ وجود میں آئی تو وہ کس حرف کا لاحقہ لگائے گی۔
اب تاریخ پاکستان مسلم لیگ کے بارے میں کیا کہتی ہے اس کے بارے بھی جان لیں۔ 1962 میں پاکستان کی بانی اصل مسلم لیگ کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے نام سے جنم لیا جو اس وقت کے سربراہ مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان کے صدر بننے کے بعد تشکیل دی گئی۔ اسی دوران کچھ سال کے وقفے سے کونسل مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی لیگ وجود میں آئی۔ اس کے کرتا دھرتا اس وقت کے صدر ایوب خان کے مخالف سیاسی رہنما تھے۔ صدر ایوب کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد یہ کونسل مسلم لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور قوم ایک نئی جماعت پاکستان مسلم لیگ قیوم سے آشنا ہوئی جو خان عبدالقیوم خان کی تشکیل کردہ جماعت تھی اور 1970 کے عام انتخابات سے قبل یہ معرض وجود میں آئی۔ 1973 میں مسلم لیگ کنونشن اور مسلم کونسل کا انضمام ہوا تو پھر ایک نئی مسلم لیگ وجود میں آئی اور پیر پگارا کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مسلم لیگ زیادہ پنپ نہ سکی لیکن ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر مملکت ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کے مقابل ایک نئی جماعت کھڑی کرکے اس کا راستہ روکنے کیلیے مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کرکے اس کٹھ پتلی جماعت کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھ لیں۔
ضیاالحق کے اقتدار میں آتے ہی ادھر اُدھر ٹکڑوں میں بکھری تمام مسلم لیگوں کو متحد کیا گیا اور محمد خان جونیجو کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا جس کے بعد پیر پگارا نے 1985 میں مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے ایک نئی مسلم لیگ تشکیل دی جو مشرف دور میں مسلم لیگ میں ضم ہوئی لیکن یہ انضمام زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور پیر پگارا کی مسلم لیگ پاکستان کے سیاسی میدان میں ایک بار پھر مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے فنکشنل ہوگئی۔
1984 کے ریفرنڈم کے بعد ضیا الحق ملک کے صدر بن گئے تھے جس کے بعد ریفرنڈم میں حمایت کرنے والی جماعت کو 1985 کے عام انتخابات کے دوران ایک نئی مسلم لیگ کے روپ میں میدان میں اتارا گیا گوکہ وہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے لیکن موجودہ مسلم لیگ ن اور اس کے بطن سے نکلنے والی دیگر جماعتوں کی بنیاد وہی 1985 کے الیکشن ہیں جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ۔
بھٹو کے شدید مخالف ہونے کے باعث نواز شریف جلد ہی ضیاالحق کے چہیتوں میں شامل ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مرحوم صدر انہیں اپنا منہ بولا بیٹا اور نواز شریف انہیں سیاسی باپ کہتے بھی نہ کتراتے اور جب کوئی سیاہ سفید کے مالک حکمراں کا منہ بولا بیٹا بن جائے تو پھر وہ کہاں رکتا ہے۔ لہذا نواز شریف نے 1988 میں اس محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کو خدا حافظ کیا اور فدا محمد خان کی تشکیل کردہ ایک نئی مسلم لیگ میں جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا لیکن پھر اس مسلم لیگ کی سربراہی لے کر اس کو مسلم لیگ ن کا نام دیا۔ مسلم لیگ ن نے اسی نام سے الیکشن لڑا اور جیت کر تین بار اقتدار حاصل کرچکی اور چوتھی بار بغیر جیتے اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔
یہ درست ہے کہ موجودہ دور میں عوامی مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کے سیاسی افق پر مسلم لیگ ن ہی سر فہرست ہے لیکن اب بھی پاکستان میں مسلم لیگ کے کئی دھڑے ہیں جس میں سے کچھ سیاسی میدان میں سرگرم تو کچھ صرف تانگا پارٹی بنے ہوئے ہیں۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان کی سابقہ سیاسی روایات کے مطابق سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ہوئی اور 2001 میں مسلم لیگ ن کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا اور 2002 کے الیکشن جیت کر 5 سال اقتدار کے مزے لیے لیکن جنرل مشرف کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی اس سیاسی جماعت کا حجم بھی انتہائی تیزی سے سکڑ گیا۔ یہ جماعت آج بھی چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پاکستان کی سیاست میں فعال تو ہے لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ گھر کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوٹنے والی ہے کیونکہ چوہدری برادران میں اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں۔
ان کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ض) جو سابق صدر ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کی مسلم لیگ ہے اور اس کی حیثیت سیاسی زبان میں تانگا پارٹی سے زیادہ نہیں اور خود اعجاز الحق بھی صرف وقتی سیاسی بیانات کی حد تک سیاست میں فعال ہیں تاہم ایک اور ون مین شو جماعت عوامی مسلم لیگ ہے جس کے سربراہ ہمارے شیخ رشید صاحب ہیں لیکن یہ تانگا پارٹی کے سربراہ ہونے کے باوجود اپنی مخصوص سیاسی صلاحیتوں کے باعث ” ہر جگہ ” قابل قبول ہوتے ہیں۔
تو قارئین گرامی یہ تھا مسلم لیگوں کا حال اب اگر ارسطو کا خطاب پانے والے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے بیان کو حسن ظن رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آج پاکستان میں کئی مسلم لیگ ہیں۔ اگر انہوں نے بھی ایسا ہی دعویٰ کردیا تو قوم سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ دھرتی ماں تو صرف ایک “پاکستان” ہے لیکن نانی اماؤں کا شمار ہی نہیں۔ اس لیے ہمارا ارسطو وزیر کو ایک ادنیٰ مشورہ ہے کہ وہ بیان دیتے وقت زبان کے ساتھ تاریخ کا بھی خیال کیا کریں کہ تاریخ زبان کی لغزش کو کبھی معاف نہیں کرتی۔