’’نہ نہ کرتے پیار تمھیں سے کر بیٹھے۔۔۔۔۔ کرنا تھا انکار مگر اقرار تمھیں سے کر بیٹھے‘‘
ایک پرانی فلم کے گیت کا یہ بول اس وقت ہمارے ذہن کے کسی کونے میں گونجا جب یو اے ای میں ایشیا کپ 2025 کے پاک بھارت میچ میں نو ہینڈ شیک تنازع کھڑا ہوا اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے پہلے اس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے میچ ریفری اینڈی کرافٹ کو ٹورنامنٹ سے نہ ہٹانے کی صورت میں ایشیا کپ سے دستبرداری کی دھمکی دی اور پھر اگلا میچ اسی میچ ریفری کی موجودگی میں ہی کھیلا۔
ایشیا کپ 2025 جو اپنے آغاز سے پہلے ہی کئی اس وقت تنازعات کا شکار ہو گیا تھا، جب پہلگام واقعے کی آڑ میں بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کیا اور پاک فوج نے آپریشن بنیان مرصوص کی شکل میں بھارت کو دندان شکن جواب دیا۔ بھارت عالمی سطح پر شرمندگی سے بچنے کے لیے ایشیا کپ میں پاک بھارت ٹاکرے سے بچنے کے لیے راہیں تلاش کرنے لگا اور مودی کے حامی انتہا پسند ہندوؤں نے ٹورنامنٹ اور پاک بھارت میچ سبوتاژ کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، مگر جیت کھیل کی ہوئی۔
تاہم جب گزشتہ اتوار 14 ستمبر کو پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں میدان میں اتریں تو بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے اسپورٹس مین اسپرٹ کو اپنے پیروں تلے روند دیا۔ میچز میں مدمقابل ٹیموں کا میدان میں ہاتھ ملانا معمول کی بات ہے لیکن بھارتی کپتان سوریہ کمار یادیو نے پہلے ٹاس کے وقت پاکستانی کپتان سلمان آغا سے ہاتھ نہ ملایا اور پھر بھارتی کھلاڑی میچ کے اختتام پر پاکستانی کرکٹرز سے ہاتھ ملائے بغیر چلے گئے۔ یہ میچ تو بھارت نے جیت لیا، لیکن اخلاقی محاذ پر اس کو بڑی شکست ہوئی، جس کو دنیائے کرکٹ میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔
اس سارے معاملہ کی ایک کڑی جا کر ملی میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ سے، جنہوں نے ٹاس کے وقت پاکستانی کپتان سلمان علی آغا کو بھارتی کپتان سے ہاتھ نہ ملانے کی ہدایت کی اور ان کی بھارت ٹیم کی فرمائش پر کی گئی یہ ہدایت مائیک کی وجہ سے ریکارڈ ہوگئی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس پر فوری ردعمل دیا اور اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور دوسری صورت میں ایشیا کپ سے دستبرداری کی دھمکی بھی دی۔ اس کے لیے پی سی بی نے دو بار آئی سی سی کو خط لکھا، لیکن آئی سی سی کی سربراہی تو بھارت کے وزیر داخلہ اور ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کے پاس تھی، تو پاکستان کا یہ مطالبہ کیسے منظور ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ آئی سی سی ٹال مٹول کرتا اور اینڈی پائی کرافٹ کو ہٹانے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے میچز میں پائی کرافٹ کی جگہ رچی رچرڈسن کو لگانے کا لالی پاپ دیا۔ تاہم پی سی بی اپنے موقف پر قائم رہا، یہاں تک کہ 17 ستمبر کو پاکستان اور یو اے ای کے درمیان میچ کا دن آگیا۔ یہ میچ پاکستان کے لیے بہت اہم تھا۔ لیکن میچ سے قبل جو سنسنی پھیلی، اور جو تماشا لگایا گیا وہ قوم کو ہمیشہ یاد رہے گا۔
پاکستان کا تمام مین اسٹریم میڈیا اس روز دیگر ایشوز چھوڑ کر صرف یہ دکھا رہا تھا کہ میچ ہوگا یا نہیں۔ دبئی سے خبریں بھی بیڈمنٹن کے کورٹ کی طرح آ رہی تھیں۔ جیسے بیڈمنٹن میں گیند کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر جاتی ہے، اسی طرح پاکستان میچ کھیلے گا اور پھر نہیں کھیلے گا کا تماشا میڈیا کے ذریعے قوم دیکھتی رہی۔ آئی سی سی اور اے سی سی حکام اس معاملے پر سر جوڑ کر بیٹھے لیکن کوئی حل نہ نکلنے پر معلوم ہوا کہ میچ نہیں ہو رہا اور پی سی بی نے قومی کھلاڑیوں کو اسٹیڈیم جانے سے روک کر واپس ہوٹل کے کمروں میں بھیج دیا ہے۔ تاہم چند لمحوں بعد ہی پی سی بی کا حکم نامہ 180 ڈگری گھوم گیا اور ٹیم کو میچ کھیلنے کے لیے گراؤنڈ جانے کی این او سی مل گئی۔ میچ ایک گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا اور قوم یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی کہ جو شخص تین روز تک وجہ تنازع بنا رہا، اور جس کی موجودگی میں پاکستان نے ایشیا کپ سے دستبرداری کی دھمکی دی تھی۔ وہی پائی کرافٹ یہ میچ سپروائز کر رہا تھا۔
یہ معاملہ حل ہونے کے بعد چیئرمین پی سی بی نے رمیز راجا اور نجم سیٹھی کے ہمراہ پریس کانفرنس کر کے قوم کو اپنے یوٹرن کا جواز یہ بتایا رچی رچرڈ سن اس وقت ابوظہبی میں ہیں اور فوری طور پر دبئی آکر آج پاکستان کا میچ سپروائز نہیں کر سکتے تھے، جب کہ اینڈی پائی کرافٹ نے پاکستان ٹیم سے معافی مانگ لی ہے، اس لیے پی سی بی نے آج کا میچ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ یقینی طور پر یہ فیصلہ خوش آئند ہے، مگر اس ساری صورتحال کے بعد کچھ سوالات نہ صرف پاکستانی بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں۔
شائقین کرکٹ سمجھ نہیں پا رہے کہ پائی کرافٹ کی نگرانی میں ہی میچ کھیلنا تھا تو میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے ہوئے تین دن تک یہ تماشا کیوں لگایا۔ دوسرا یہ کہ اگر آئی سی سی نے پاکستان کے میچز کے لیے پائی کرافٹ کی جگہ رچی رچرڈسن کو لگانے کی پیشکش کی تھی تو محسن نقوی جو ایشین کرکٹ کونسل کے صدر ہیں اور ایشیا کپ کے شیڈول کی منظوری انہوں نے ہی دی۔ تو کیا وہ پاکستان اور یو اے ای کے میچ سے قبل ہی رچی رچرڈ سن کی دبئی میں موجودگی کو یقینی نہیں بنا سکتے تھے۔
پی سی بی نے مذکورہ معاملے پر آئی سی سی کو دیر سے خط لکھنے پر ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ کو تو برطرف کر دیا، لیکن ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ جنہوں نے میچ ختم ہونے کے کئی گھنٹے بعد یہ انکشاف کیا کہ میچ ریفری پائی کرافٹ نے ٹاس کے وقت دونوں کپتانوں سے باہمی ہاتھ نہ ملانے کا کہا تھا، تو یہ اسی وقت پی سی بی حکام کو کیوں نہ بتایا گیا اور کیوں بر وقت اس پر پی سی بی نے ایکشن نہ لیا، یہ ایک سوال ہے۔ اس حوالے سے بھارتی کرکٹ بورڈ کا بھی موقف آیا اور حقیقت یہی ہے کہ میچ کے دوران مدمقابل ٹیموں کے کھلاڑیوں کا ہاتھ ملانا صرف جذبہ خیر سگالی کا اظہار ہے، آئی سی سی کے قوانین میں اس حوالے سے کوئی شق درج نہیں ہے۔ تاہم دہائیوں سے کھلاڑی اسی جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ اچانک یوں بھارتی کرکٹرز کا رویہ اخلاقی پستی کی نشاندہی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ بھارتی کرکٹ اور سیاست کس نہج پر جا رہی ہے۔
اس سارے تماشے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کا ہاتھ نہ ملانا آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نہیں۔ لیکن میچ کے دوران یا بعد میں سیاسی گفتگو کرنا یقینی طور پر آئی سی سی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ یہ خلاف ورزی بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو نے میچ جیتنے کے بعد اس فتح کو پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں مارے جانے والوں اور آپریشن سندور میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے نام کیا۔ اس کے بعد ایک بار پھر زہر اگلتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت ایشیا کپ جیتا تو وہ اے سی سی کے صدر محسن نقوی سے ٹرافی وصول نہیں کریں گے۔
آئی سی سی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی واضح خلاف ورزی پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا کوئی کارروائی نہ کرنا اس کی جانبداری اور کھیل میں سیاست کی مداخلت کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔ اگر یہی بات پاکستانی کپتان کرتا اور فتح کو معرکہ حق کے نام کرتا تو پوری دنیا میں طوفان آ جاتا اور آئی سی سی بھی بجلی کی رفتار سے کارروائی کرتی۔ لیکن اگر آئی سی سی نے ازخود ایکشن نہیں لیا تھا، تو کم از کم تین دن تک جذباتی گفتگو کر کے پاکستانی قوم کو جوش دلانے والے پی سی بی حکام ہی بھارتی کپتان کے خلاف شکایات لے کر آئی سی سی پہنچ جاتے، لیکن یہاں ایسا لگا کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ماضی میں بھی متعدد بار ایسا ہی کچھ کرچکا ہے۔ حال ہی میں 2023 کے ایشیا کپ میں، جس کی میزبانی پاکستان کو ملی تھی۔ تاہم بھارت نے جب پاکستان نہ آنے کی دھمکی دی اور ہائبرڈ ماڈل کے تحت اپنے میچز نیوٹرل مقام پر کھیلنے کا مطالبہ کیا تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے حال ہی کی طرح اس وقت بھی صرف دھمکایا لیکن پھر خود ہی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیلنے پر راضی ہو گئے۔
ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ بھارت کھیل میں سیاست کو کھینچ لاتا ہے جب کہ پاکستان نے سیاست کو کھیل سے دور رکھا اور کھیل کو کھیل ہی سمجھا ہے۔ تاہم قوم بالخصوص کرکٹ شائقین یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب یہی ہونا تھا تو قوم کے جذبات سے کھیلنے کی کیا ضرورت تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے یوٹرن کے بعد کیا اب قوم پی سی بی کے وعدوں اور نعروں پر یقین کرے گی؟ ہمارا یہ سوال ہے۔
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست اور معاشرتی مسائل پراظہار خیال کرتے ہیں.