حسنِ معاشرت اور اخلاقیات کی دینِ اسلام میں نہایت اہمیت ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاقیات پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات کی بنیاد پر ایک پُرسکون اور مثالی معاشرہ استوار ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات میں معاشرے میں بسنے والوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی خاص تاکید کی گئی ہے۔ یہ وہ اعمال اور افعال ہیں جو حسنِ معاشرت اور عافیت و بھلائی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ زکوٰۃ ان میں بنیادی اور نہایت اہم رکن ہے جس کے ادا کرنے سے بندوں کے حقوق ادا ہوتے ہیں۔ آپس میں محبت اور پیار بڑھتا ہے، بھائی چارے کی فضا بنتی ہے۔ غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات کو سمجھنے اور انھیں پورا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ دراصل اسلام کبھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ معاشرہ میں کچھ لوگ تو آسودہ حال اور عیش و آرام سے رہیں اور کچھ محتاج اور مقروض ہونے کے سبب پریشان اور بد حال رہیں اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہ ہو۔ اسلامی تعلیمات میں اس تصوّرِ حیات کو اہمیت دی گئی ہے جس میں وہ معاشرے کے غریب، یتیم، بیوہ، نادار اور محتاجوں کی مدد چاہتا ہے اور مال داروں کو ان کی مدد کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
زکوٰۃ انسان کے دل سے دنیا پرستی اور مال کی محبت کو نکالتی ہے اور اس تصور کو مضبوط کرتی ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اس کی اپنی قوت اور توانائی کو اس میں کچھ دخل نہیں ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے نوازتا ہے اور کسی کو نوازنے اور کسی کے محروم رہ جانے میں اس کی کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ زکوٰۃ کے انفرادی فوائد اپنی جگہ مگر ایک اسلامی معاشرے پر اس کے نہایت خوش گوار اور مثبت اثرات پڑتے ہیں۔
زکوٰۃ دینے کا جذبہ اور اس کی درست تقسیم مسلم معاشرہ میں خوش حالی اور آسودگی کا سبب بنتی ہے۔ فقر و غربت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ بھوک کے عفریت کو مٹاتی ہے اور سماج کے کمزور، پسماندہ اور غریب لوگوں کی امداد کے اس طریقے سے ہم دوسروں کا حق نہایت احسن طریقہ سے ادا کرپاتے ہیں۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا نفس بخل، طمع، لالچ، حرص اور مال و دولت کی محبت کے تباہ کن عیوب سے پاک ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر فیاضی و سخاوت اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ سخاوت انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہے جب کہ بخل انسان کو دوزخ کے قریب کر دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’سخاوت جنت میں ایک درخت ہے۔ سخی اس کی ٹہنیاں پکڑ لیتا ہے اور وہ اس کو جنت میں داخل کر دیں گی اور بخل دوزخ کا ایک درخت ہے۔ بخیل اس کی ٹہنیاں پکڑ لیتا ہے، وہ اس کو دوزخ میں داخل کر دیں گی۔‘‘ (بیہقی)
اللہ سے خیر و برکت کے متمنی اور اس پر یقین رکھنے والا ہر مسلمان یہ تجربہ کرتا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے اس کے نادار بندوں پر مال خرچ کرتے ہیں تو اللہ کی رحمت دینے والے کی طرف کیوں نہ متوجہ ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک اور روایت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’سخی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور دوزخ سے دور ہے اور بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے اور آگ سے قریب ہے۔ جاہل سخی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بخیل عابد سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘(ترمذی)
بدقسمتی سے ہم نے زکوٰۃ کی روح اور اس کے حقیقی مفید اثرات کو سمجھا ہی نہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد اپنی کتاب ‘حقیقتِ زکوٰۃ’ میں لکھتے ہیں: “زکوٰۃ کے نظام سے لوگ بتدریج غافل ہوگئے اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ لوگوں نے سمجھ لیا زکوٰۃ نکالنے کا معاملہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ خود حساب کرکے ایک رقم نکال لیں اور پھر جس طرح چاہیں خود خرچ کر ڈالیں۔ حالانکہ جس زکوٰۃ کی ادائیگی کا قرآن نے حکم دیا ہے اس کا قطعاً یہ طریقہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کی جو جماعت اپنی زکوٰۃ کسی امین زکوٰۃ یا بیت المال کے حوالے کرنےکی جگہ خود خرچ کر ڈالتی ہے؛ وہ دیدہ و دانستہ حکم شریعت سے انحراف کرتی ہے اور یقیناً عنداللہ اس کے لئے جوابدہ ہو گی۔‘‘ زکوٰۃ کے اپنے مد ہیں۔ ایک اجتماعی نظام ہی سے ممکن ہے کہ ان تمام مدوں میں زکوٰۃ تقسیم ہو۔ تاہم یہ ایک بحث ہے جس پر علماء اور وہ جیّد لوگ ہی بہتر بات کرسکتے ہیں جو کسی بھی ملک میں معیشت اور طبقاتی تفریق کے خاتمے کے نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
اگر زکوٰۃ کے جمع و تقسیم کا صحیح نظم ہو تو معاشرہ کے غریب طبقات کی مدد آسان ہوگی اور غربت کو دور کیا جاسکے گا اور ایک اسلامی معاشرہ خوش حال ہوسکے گا۔