The news is by your side.

میٹنگ روم میں صرف آپ اکیلے ہی جا سکتے ہیں!

انسانی تصورات کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے۔ انسانی تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کنسیپٹس ہی ہیں جن کی مدد سے سو اور ڈیڑھ سو سے زیادہ بڑے انسانی گروہوں کا وجود ممکن ہو سکا۔ آدمیوں کا جو گروہ ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد سے بڑھنے پر ٹوٹ جاتا تھا وہ لاکھوں اور کروڑوں تک وسیع ہونا ممکن ہوا۔

جو چیزیں موجود نہیں ہیں، ان کے تصور میں اتنا کمال ہے کہ ان گنت لوگوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ اس کمال کے ادراک کے باعث انسانوں نے تصورات کے فکس/ناقابل تغیر/متعین/حتمی ہونے کا یقین بھی کر لیا۔ یہ سب اتار چڑھاؤ آدم کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہی ہوا ہے، اور آج آدم نے تصور کی اس سب سے بڑی خصوصیت کو دریافت کیا ہے کہ یہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے، اور یہ کبھی بھی حتمی نہیں رہا۔ جس شے کے بارے میں ہمارا خیال ہوتا ہے کہ یہ ناممکن ہے، وہ ممکن ہو جاتا ہے۔

تصور کیسے بدلتا ہے؟ اس کے لیے بہ طور مثال کسی میٹنگ یا میٹنگ روم کا تصور کریں۔ یہ تصور جڑا ہی ایک سے زائد افراد کی موجودی سے ہے۔ اگر کوئی آپ سے کہے کہ یہ ایک میٹنگ روم ہے اور اس میں صرف آپ اکیلے ہی ’میٹنگ‘ کر سکتے ہیں، کسی اور شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوگی، تو یقیناً آپ اس کی دماغی حالت پر شک کا اظہار کریں گے۔ لفظ ’ملاقات‘ (یا مجلس یا اجلاس) کا تصور اجتماعیت پر استوار ہے۔ انسانی تاریخ میں کبھی ایسی اجتماعیت کا تصور نہیں کیا گیا جس میں کسی مقام پر ایک سے زیادہ افراد بہ یک وقت موجو نہ ہوں۔

ملاقات کے تصور میں یہ بنیادی نکتہ بھی ہمیشہ موجود رہا کہ تمام افراد ایک خاص وقت میں جسمانی طور پر ایک مخصوص جگہ موجود ہوں۔ اس اجتماعیت کے مقاصد بھی ہمیشہ ایک دائرے تک محدود رہے۔ خواہ وہ ستر ہزار سال قبل کے ادراکی انقلاب سے قبل کے انسانوں کی محدود اجتماعیت ہو، یا ابھی ماضی قریب کی تجارتی کمپنیاں۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی کمپنی کی طے شدہ میٹنگ میں مقررہ وقت پر تمام ارکان میٹنگ روم میں موجود نہ ہوں، اور پھر بھی وہ اس میٹنگ کا حصہ ہوں۔

میٹنگ کا یہ تصور ایک دوسرے سے انجان اور لا تعلق افراد کے ایک کمپنی کی صورت میں مل بیٹھنے سے تشکیل پاتا ہے، جس میں افراد ایک ایسی چیز کی ’بہتری‘ کے لیے اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں جو حقیقتاً موجود نہیں ہوتی، لیکن اسے فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ ہے۔ یعنی کمپنی، جس کا ایک مخصوص نام بھی ہوتا جو ایک براند کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ بات بہ ذات خود حیران کن ہے کہ لا تعلق افراد ایک ہی مقصد کے لیے جمع ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ معروف تاریخ دان یووال نوح ہراری کا کہنا ہے کہ یہ معجزہ ’تصور‘ کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ ورنہ انسانی تاریخ میں ستر ہزار سال قبل تک قبیلے کا وجود ہی قریبی تعلق اور پہچان پر منحصر رہا ہے، جس کی وجہ سے قبیلوں کے افراد کی تعداد ہمیشہ سو کے آس پاس ہی رہی۔

اسی ’تصور‘ نے نہ صرف انسانوں کو مذہب کے نام پر بڑی ملتوں میں یک جا کیا، بلکہ بڑی اور وسیع معیشتوں کو بھی جنم دیا۔ جس طرح ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں انجان لوگ مذہبی بھائی چارے میں بندھتے ہیں، اسی طرح معاش کے حصول کے لیے بھی ہزاروں لوگ کمپنیوں کی صورت میں اکھٹے ہوتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ’تصور‘ کی اس قوت نے آدمی کو پوری طرح اپنی گرفت میں لیا، اور زبان کی تشکیل اور استعمال کی بے پناہ صلاحیت کے حصول کے ساتھ اس نے اپنی پوری زندگی ’تصورات‘ کے حوالے کر دی، یا یوں کہیں کہ بھینٹ چڑھا دی۔ چناں چہ آدمی کے لیے اس کے تصورات نے ایسا تقدس حاصل کیا کہ ان سے رو گردانی اس کے لیے ناممکن ہو گئی۔ تصور خواہ مذہبی ہو، اخلاقی ہو، سماجی ہو، سیاسی ہو، یا معاشی؛ اس نے ہمیشہ آدمی کو اجتماعیت کی طرف دھکیلا، اور زیادہ تر اس کی انفرادیت کی نفی پر۔آپ نے ایک ایسے میٹنگ روم کا تصور کیا ہے، جس میں محض ایک ہی فرد جا کر ’میٹنگ‘ کر سکتا ہے۔ بہ ظاہر یہ ایک پیراڈاکس ہے۔ لیکن ہمارا یہ متعین تصور اس وقت پوری طرح اپنی صورت بدل گیا جب پوری دنیا کو مہلک ترین وائر کووِڈ نائنٹین کی وبا نے لپیٹ میں لے لیا۔ کئی سارے تصورات بدلے اور نئے تصور تشکیل پائے۔ سماجی فاصلے کا تصور نمایاں ہو کر سامنے آیا۔ اسی طرح اجتماعیت کے لیے نئے طریقے تشکیل دیے گئے۔ جو میٹنگ/ملاقات ایک خاص کمرے میں مل بیٹھے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتی تھی، وہ اب کمرے میں ایک شخص کی موجودی کے ساتھ برپا ہونے لگی۔ میٹنگ میں اس کے ساتھ مزید غیر حقیقی پن آیا اور آن لائن حاضری کے تصور نے جنم لیا۔

پہلے ہمارا یقین تھا کہ میٹنگ ایک ہی وقت ایک ہی جگہ مل بیٹھے بغیر نہیں ہو سکتی۔ میٹنگ کا تصور اسی یقین کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ لیکن اب ایک چھوٹے سے تنگ کمرے میں اکیلے بیٹھ کر بھی کسی نہایت اہم میٹنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ چناں چہ اگر اب کوئی آپ سے کہتا ہے کہ یہ ایک میٹنگ روم ہے اور اس میں صرف آپ اکیلے ہی ’میٹنگ‘ کر سکتے ہیں، کسی اور شخص کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوگی، تو آپ کو اس کی بات کا مفہوم فوراً سمجھ میں آ جاتا ہے۔

دنیا کا ہر تصور وقت کے ساتھ ساتھ اسی طرح اپنا رنگ دھنگ بدلتا رہتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخر میں مغربی فلسفے میں رونما ہونے والی تحریک مابعد جدیدیت (post modernism) نے ’تصورات‘ کی اس نوعیت پر زبردست توجہ مرکوز کی۔ اسی طرح لسانیاتی فلسفے میں مابعد ساختیات (post structuralism) نے زبان کے اندر پنپنے والے ان ’تصورات‘ کی نشان دہی کی جس نے خود کو ہمیشہ ’حتمی سچ‘ اور ’طے شدہ حقیقت‘ جیسی صورتوں میں پیش کیا۔ لیکن مابعد ساختیات نے دکھایا کہ تصور ہمیشہ ثقافتی، سیاسی، سماجی اور معاشی تناظر میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

شاید آپ یہ بھی پسند کریں