اردو ادب کے کئی اہل قلم، بالخصوص شعرا اور ادیبوں ایسے ہیں جو اپنی شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر تھےاور ان کے اردگرد چاہنے والوں کی بھیڑ رہتی تھی، لیکن وہ زندگی سے اکتا چکے تھے اور ایک روز موت کے دامن میں پناہ لے لی۔ شکیب جلالی پاکستان کے ایک ایسے ہی مقبول شاعر تھے جنھوںنے خود کشی کی تھی.
شکیب جلالی نے چھوٹی سی عمر میں ایک ایسا حادثہ دیکھاجس کا خوف ان کے رگ و پے میں سرایت کرگیا، اس کا دکھ اور صدمہ ایسا تھاکہ وہ جب تک زندہ رہتے ، اس سے باہر نہیںنکل سکتے تھے. انھوں نے اپنی ماں کو ٹرین سے کٹ کر مرتا ہوا دیکھا. اس وقت شکیب صرف نو برس کے تھے. شکیب جلالی کا شعر ہے:
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا
یہ وہ زخم نہیں تھاکہ مشکل سے سہی بھرہی جاتا. یہ حادثہ تو زندگی کا روگ بننا ہی تھا. خواہ زندگی مختصر ہو یا طویل. مضبوط اعصاب، حوصلہ، صبر، ہمت جیسے الفاظ اور اس کے ساتھ ہمدردی میں ڈوبا ہوا کوئی بھی جملہ نو سال کے ایک بچے کو کب تک سہارا دے سکتا تھا. وہ بڑا ہوتا چلاگیا. شکیب کی عمر کے ساتھ وہ غم بھی پلتا رہا. وہ بھی جوان ہوتا رہا. شکیب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے.
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
شکیب جلالی بظاہر زندگی کی طرف لوٹ آئے تھے. لیکن ذہنی انتشار وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا جس نے ایک مرض کی شکل اختیار کرلی. انھیں علاج کی غرض سے اسپتال میں داخل کروایا گیااور بہتر ہونے پر گھر آگئے. شکیب کی شادی ہوئی، وہ ملازمت کرتے رہے اور شاعری کا سلسلہ بھی جاری رہا . لیکن وہ مضطرب اور منتشر رہے.
شکیب جلالی علی گڑھ کے قصبہ جلالی میں یکم اکتوبر 1934ء کو پیدا ہوئے، اصل نام سید حسن رضوی تھا. والد سید صغیر حسین پیری مریدی اور وظائف کی کثرت کی وجہ سے ذہنی طور پر ٹھیک نہیں رہے تھے. انھیں اسپتال میں داخل کروایا گیااور ایک سال بعدگھر لوٹے تو زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکے.
شکیب جلالی کا ایک المیہ یہ بھی تھا کہ ان کی والدہ کی ناگہانی موت کا سبب ان کے والد تھے. مشہور ہے کہ 1944ء میں صغیر حسین اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ بریلی کے ریلوے اسٹیشن پہنچے اور اپنی بیوی کو پٹڑی پر دھکا دے دیااور ریل گاڑی ان پر سے گزر گئی جس کےنتیجے میں وہ ہلاک ہوگئیں۔ یہ دردناک واقعہ شکیب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.ان کے خوف اور دہشت کا کیا عالم ہوگایہ تصور کرنا ہی دشوار ہے. یہ سب جانتے تھے کہ شکیب کے والد ایک نارمل انسان نہیں تھے اور ان کی اسی کیفیت نے ایک روز ان کی بیوی کی جان لے لی۔ لیکن ان پر مقدمہ چلا اور جیل بھی گئےکیوں کہ اس روز کئی لوگوں نے انھیں اپنی بیوی کو دھکا دیتے ہوئے دیکھا تھا۔شکیب بعد میں اپنی بہنوں کے ساتھ پاکستان چلے آئے تھے.
والدہ کی ہلاکت اور پاگل باپ کی موت کے ساتھ پاکستان میں شعرو ادب کی دنیا میں اپنےحاسدین اور بدخواہوں کے رویوں اور سازشوں کی وجہ سے شکیب زندگی سے بیزار ہوتے چلے گئے. شکیب جلالی منفرد اسلوب کے شاعر تھے۔ انھوں نے غزل کو ایک نیا لہجہ دیا اور جب انھوں نے خودکشی کی وہ ان کی شہرت اور مقبولیت کا زمانہ تھا ۔ شکیب نے بھی سرگودھامیں 12 نومبر 1966 کوریل کے آگے آکر خود کشی کرلی تھی. اردو کے اس مقبول شاعر کی یہ مشہور غزل باذوق قارئین کی نذر ہے.
غزل
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی تیز چلے سرپھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے
برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انہیں تو دن کا بھی سایا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے
سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قد بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے
کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے