عامر معان
سورج ہمیں ڈھلتا محسوس ہوتا ہے اور شاعر کہتا ہے:
وعدہ کیا ہے یار نے آنے کا دن ڈھلے
سورج تجھے قسم ہے چلا جا تلے تلے
لیکن سائنس کہتی ہے کہ سورج ساکن ہے، اور زمین گھوم رہی ہے۔ یہ نہ لکھنے پر استاد ہمارے نمبر کاٹ کر ہمیں سزا دینے میں ذرا نہیںجھجکتے۔ لہٰذا سائنس کی رو سے صرف منظر ہماری نگاہوں میں دھندلا رہا ہوتا ہے۔ جب ہمیں سورج ہماری طرف غروب ہوتا محسوس ہو رہا ہوتا ہے، تو کسی اور خطہ زمین پر یہ طلوع ہو رہا ہوتا ہے۔ یعنی اگر کوئی ایک طرف سورج کے غروب ہونے کا نظارہ کر رہا ہوتا ہے تو کوئی دوسری طرف اس کو طلوع ہوتا دیکھ رہا ہوتا ہے۔
کوئی تھا خوش کہ طلوع ہو رہے ہیں ہم لیکن
کسی کو آئے نظر ہم غروب ہوتے ہوئے
یعنی بیک وقت دو مختلف خطوں کے لوگ دو مختلف نظارے کر رہے ہوتے ہیں اور سورج دونوں پر مسکرا رہا ہوتا ہے، کیونکہ نہ وہ غروب ہو رہا ہوتا ہے اور نہ طلوع، بلکہ وہ تو ایک ساکن کیفیت میں زمین کے گھومنے کا نظارہ کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے ایک بچہ ٹی وی اسکرین پر ابھرتی مختلف اشکال دیکھ رہا ہو اور خوش ہو رہا ہو ۔ لیکن اتنے خوش باش بچے میں اتنی آگ کیوں ہے، وہ سب کچھ بھسم کرنے کے کیوں درپے ہے۔ ذرا سا وہ اپنا انداز دکھاتا ہے اور زمین کے باسی اس سے چھپنے لگتے ہیں۔ پسینے سے شرابور ہو کر سائے کی تلاش میں سرگرداں پھرتے ہیں ۔ ویسے تو آج کل سورج کی طاقت سے بجلی بنانے کا بھی انتظام انسان نے کر لیا ہے ، یعنی غصہ کسی کا اور بھلا کسی کا۔ شاید اسی لئے بزرگ کہتے تھے غصہ اچھی بات نہیں ہے اس سے دوسرے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ چاند اس سورج کو غصہ دلا کر اپنا کام نکالتا ہے تاکہ سب من موہن، شانت سے، بنا جھلسائے روشنی دیتے اس چاند کو پیار کرتے رہیں اور سورج بے چارہ غصہ کرتا اور جلتا رہے۔
لیکن سورج بھی بہت چالاک ہے۔ موسم سے ساز باز کر کے اس کو بدلنے کا کہتا رہتا ہے تاکہ لوگ سرد موسم میں سورج کو پیار کرنے پر مجبور ہو جائیں، اور تب سورج خوب نخرے دکھائے ۔ کبھی بادل میں چھپ جائے، کبھی چھپ چھپ نین ملائے۔ اور سورج کو دیکھتے ہی لوگ کہیں ارے سورج نکل آیا چلو اس سے باتیں کریں۔ تب چاند کو بہت جلن ہوتی ہے اور وہ منصوبہ بندی کرتا ہے کہ کیسے جلدی سے موسم کو بدلنے کا کہے، تاکہ پھر سے لوگ چاند کے دیوانے ہو جائیں۔
یہ اعتبار کی دنیا نہیں ہے سچ ہے یہ
یہ ساز باز کی دنیا ہے ہوشیار رہو
سورج اور چاند کے اس کھیل سے یاد آیا، انسان میں بھی تو ایسی ہی جلن ہوتی ہے، وہ بھی دوسرے کی حیثیت گھٹانے،اسے اپنے سے کم تر کرنے کے لئے سازشیں کرتا ہے۔ کسی کی نظر میں دوسرے کو گرا کر خود اونچا ہو نا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب موسم کے ہاتھ ہے اور وہ خاموشی سے وقت بدل کر کسی کی خوشی کو غم میں اور کسی کے غم کو خوشی میں بدلتا رہتا ہے۔
سورج غروب ہوتے دیکھ کر خیالات کی ندی بہنے لگی ہے۔ بے ربط سی، کبھی اس کی کوئی لہر کنارے سے ٹکراتی ہے اور کبھی ساحل کو چوم چوم آتی ہے، لیکن ہوتا وہی ہے جو نظام چلانے والے کی خواہش ہوتی ہے۔ اس نے سورج بنایا ، چاند بنایا ،چرند پرند بنائے ، انسان بنائے اور پھر وہ سب اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں لگ گئے۔
اب آنکھ کھلے گی تو یہ خواب لگے گا یا آنکھ بند ہو گی تو وہ خواب لگے گا ؟