1990 کی دہائی میں جب ہر گلوکار کی جانب سے اپنے گیتوں کے البم نکالنے کا ٹرینڈ چل پڑا تھا تو اس وقت کے معروف سنگر علی حیدر کا یہ گیت نوجوانوں میں بڑا مقبول ہوا تھا، جس کے بول تھے ’’سارے منڈے لگ گئے کام سے، ہائے میں رہ گیا کنوارا‘‘۔ اس وقت خیر سے ہم بھی کنوارے تھے، تو دیگر نوجوانوں کی طرح یہ حسرت بھرا گیت دلچسپی سے دوستوں کی محفل میں نہ صرف سنا کرتے تھے بلکہ موقع محل کی مناسبت سے گنگنایا بھی کرتے تھے۔
جس گلوکار نے یہ گانا گایا، اب وہ بھی ماشا اللہ سے شادی شدہ ہیں اور ہم سمیت دیگر تمام جو یہ گیت سنا کرتے تھے وہ سب بھی کئی دہائی قبل کنوارے سے ’’شادی شدہ‘‘ ہوچکے ہیں۔
قارئین یہ پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ جس زمانے کا ذکر ہے، اس اعتبار سے تو اب ہم ادھیڑ عمر میں ہوئے تو یہ باتیں کیوں کررہے ہیں۔ تو یہ بتاتے چلیں کہ آج کا بلاگ ہم اپنے کسی حسرت نا تمام کی یاد میں نہیں بلکہ موجودہ اور مستقبل کے نوجوان کنواروں کی مشکلات کو بھانپ کر پیش بندی کر رہے ہیں۔
شادی ہال میں تقریب پر ودہولڈنگ ٹیکس نافذ کردیا گیا
نت نئے ٹیکس نافذ کرنا ہماری حکومتوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ ہماری ٹیکس پسند حکومتیں، جو ہر مسئلے کا حل ایک اور نئے ٹیکس کے نفاذ میں ڈھونڈتی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے سوچنے کے بجائے نئے قرضوں کے حصول کی جستجو میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی راہیں ڈھونڈتی رہتی ہے کہ اسی راہوں سے گزرنے کے بعد اس کو قرض مع بھاری بھرکم سود کا پھل ملتا ہے، جو بعد میں ان حکمرانوں نے نہیں بلکہ ہم اور آپ جیسے غریب غربا اور ہماری آنے والی نسلوں نے ہی اتارنا ہوتا ہے۔
رواں مالی سال 2025 کے آغاز سے قبل بجٹ میں شادی ہال کے ساتھ بیوٹی پارلرز پر نئے ٹیکس لگانے کی افواہیں شروع ہوئی تھیں تو اس سے مَردوں کے کان کھڑے ہوئے تھے کہ شادی ہال تو شاید زندگی میں ایک یا دو بار لیکن بیوٹی پارلر تو آئے روز کا جھجھٹ اور جیب پر بڑا بوجھ ہوتا ہے، کیونکہ خواتین ’’سجنا اور سنورنا تو ہر عورت کا حق ہے‘‘ کے اس مقولے پر من وعن عمل کرتی ہیں۔
اب اڑتے اڑتے یہ خبر تصدیق شدہ ہو گئی ہے کہ سندھ حکومت نے شادی ہالوں پر 10 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیا ہے۔ گوکہ یہ کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے مگر آجر کے بجائے اجیر پر اس کا نفاذ ضرور نیا ہے۔ جی ہاں ایف بی آر سے کامیاب مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس ود ہولڈنگ ٹیکس سے شادی ہال مالکان کو مکھن سے بال کی طرح باہر نکال کر سارا بوجھ شادی کرنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ یعنی اس ٹیکس کا شادی ہال مالکان سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ شادی ہال کی بکنگ کرانے والوں کو یہ ٹیکس دینا ہوگا۔ جب یہ سنا تب ہمیں ماضی میں ذوق وشوق سے سنا جانے والا یہ گیت یاد آیا، لیکن ماضی میں یہ گیت سنتے وقت کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہماری مستقبل کی حکومت شادی کو کنواروں کی حسرت بنانے پر تل جائے گی۔
پاکستان میں کئی موسم ہوتے ہیں اور ان میں شادی کا موسم سب سے اہم ہوتا ہے جو سال کے صرف چند مخصوص ماہ چھوڑ کر سارا سال جاری رہتا ہے۔ موسم سرما کی آمد ہوئی ہے لیکن موسمی ٹھنڈ کے بجائے اس نئے شادی ٹیکس کے نفاذ نے ہی ان کے ارمان ٹھنڈے کر دیے ہیں، جو عنقریب یا مستقبل میں شادی کرنے والے ہیں۔ اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ محدود آمدنی اور بجٹ میں کس کام کو پس پشت ڈال کر شادی سے پہلے 10 فیصد جبری ٹیکس کا انتظام کریں، اگر ایسا نہ کیا تو پھر وہ کنوارے رہ سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں شادی امیر کی ہو یا غریب کی، کئی تقریبات پر مشتمل ہوتی ہے۔ امرا تو خیر ابٹن، مہندی، مایوں، برائیڈل شاور، بارات، ولیمہ اور دیگر کئی ناموں سے تقریبات ایجاد کر کے اور ان کے لیے لگژری شادی ہالز بک کر کے اپنی خوشیاں منانے کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ ہمارے امیروں کا بس چلے تو وہ سانس بھی برانڈڈ ہوا میں لے، پھر چاہے اس کے لیے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنے پڑے۔ اس لیے ان کے لیے یہ ٹیکس تو کوئی مسئلہ نہیں یہ مسئلہ تو غریب یا متوسط طبقے کا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے بے قابو جن کی بدولت ایسی چادر اوڑھنے پر مجبور ہے جس میں سر ڈھکو تو پیر کھلتے ہیں اور اور پیر ڈھکو تو سر۔ غریب اور متوسط طبقہ تو صرف بارات یا ولیمہ کی تقریبات ہی شادی ہالز میں کرتا ہے اور وہ بھی بعض اوقات اس کی جیب پر بہت بھاری پڑتی ہیں۔
شادی ہالوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی گھنٹی شادی کرنے والوں کے گلوں پر باندھے جانے کے بعد وہ غریب باپ کیا کرے گا جس نے اپنی ساری جمع پونجی اپنی بیٹے یا بیٹی کی شادی پر لگا دی ہوگی۔ وہ بھائی کیا کرے گا، جس نے بہن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے اپنے دفتر کا کاروباری مالک سے قرض لیا ہوگا۔ وہ ماں کیا کرے گی جس نے گھر کے اخراجات میں کمی اور خواہشات کو پابند سلاسل کر کے بچت کی اور اس سے کمیٹیاں ڈال کر آج کے دن کے لیے کچھ رقم جوڑی ہوگی۔
اس صورتحال میں ہمیں وہ وقت بھی یاد آ رہا ہے، جب شادی ہالوں کا کوئی جھنجھٹ نہیں ہوتا تھا۔ گھروں کے باہر شامیانے قناتیں لگتی تھیں اور شادیاں ہو جاتی تھی۔ اس سے بھی پہلے ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ ٹینٹ شامیانے کے بکھیڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ آپس میں لوگوں کا میل ملاپ اور محبت ایسی ہوتی تھی کہ کسی ایک گھر کی خوشی پورے محلے کی خوشی بن جاتی تھی۔ مہمانوں کے لیے ہر گھر کے دروازے کھل جاتے تھے۔ گھروں میں باراتیوں کا بٹھانے اور کھلانے کا انتظام ہوتا تھا اور یوں بغیر کسی دکھاوے گھر بس جایا کرتے تھے۔
ملکی دگرگوں حالات اور بڑھتی مہنگائی نے پاکستانی عوام کے خوش ہونے کے مواقع ویسے ہی کم کر دیے ہیں۔ امیر تو خوشیوں کے لیے کئی مواقع اور بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن غریب کے لیے تو شادی بیاہ ہی ایسا موقع رہ گیا ہے جہاں وہ کچھ لمحے خوش ہو سکتا ہے۔ لیکن کبھی بے جا رسومات اور کبھی یہ ٹیکس در ٹیکس ان کی خوشیوں کو روکھا پھیکا کر دیتے ہیں۔
حکمرانوں سے تو کوئی توقع نہیں کہ وہ عوام بالخصوص غریب اور متوسط طبقے کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں اور سہولتوں کے لیے کوئی کام کرے۔ تاہم اگر ہم عوام ہی اپنا قبلہ درست کر لیں۔ دکھاوے سے پرہیز اور بے جا تقریبات سے گریز کریں تو پھر کوئی ود ہولڈنگ ٹیکس کسی کو نہیں ڈرا سکے گا۔ آج عمومی اور بے غرض محبتیں کم ہونے، رہائش کا رجحان کثیر المنزلہ عمارتوں کے چھوٹے فلیٹوں میں ہونے کے باعث اگر گھروں میں شادی کی تقریبات ممکن نہیں اپنے علاقوں میں ٹینٹ لگانے کا رواج دوبارہ کریں کہ اپنی مشکل اور اپنا حل کے تحت پہلا جرات مندانہ قدم بھی خود کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس طرح آپ نہ صرف شادی ہال اور اس کے لیے ٹرانسپورٹ کے انتظام کے اضافی خرچ سے بچ سکتے ہیں بلکہ ایک فرسودہ دکھاوے کے خود ساختہ رواج کا خاتمہ کر کے غریبوں کے لیے امید کی کرن اور زمانے کے لیے قابل تقلید بن سکتے ہیں